ایک پرانی کہانی پڑھی تھی کہ ایک چڑیا کے چڑے کو ایک آدمی نے اپنے تیر سے شکار کرکے مار دیا، چڑیا اُڑ کر بادشاہ وقت کے دربار پہنچی اور شکایت کی بادشاہ نے حکم دیا اس آدمی کو لایا جائے پوچھنے پر کہ وہ آدمی کیسا لگتا تھا چڑیا نے کہا بظاہر وہ اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھا ،شریف لگتا تھا۔ اس پہچان پر وزیر کے کارندے اُسے پکڑ لائے بادشاہ نے چڑیا سے پوچھا تم کیا چاہتی ہو۔ چڑیا نے کہا ”جہاں پناہ بس اتنا کہ اگر یہ شکاری تھا تو شکاریوں والا لباس پہنتا اور اب یہ شرافت کا لبادہ اتاروے۔ آج ہم حکومت اور ان کے لانے والوں سے کہیں گے کہ اپنی وردی اور سوٹ بوٹ اتار دو اور اعلان کر دو کہ تم کیا ہو ، یہ جھوٹا پروپیگنڈاکیوں آج ملک میں سوائے پنجاب کے جو بھونچال آیا ہوا ہے وہ نہایت ہی شرمناک، ظالمانہ اور ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے۔ حال ہی میں عید کے موقعہ پر عمران خان کو عید کی نماز نہیں پڑھنے دی جب کہ اڈیالہ جیل میں بڑی مسجد ہے لیکن یہ مسجد حکمرانوں کی نااہلی اور ظالمانہ رویہ کے تحت ہے نہ ہی عمران خان کو کسی سے ملنے دیا کسی کی عبادت کو روکنا فسطائیت ہے اور بزدلی کی پہچان۔ ہمارے میڈیا نے خبر دی کہ بھارت نے منی پور کے قبائل کے خودمختار حکومت قائم کرنے کی آواز کے جواب میں لانچر کا استعمال کیا مخالف گروپ نے آواز اٹھائی ہے اور انڈیا کی فوج پہلی فوج ہے جس نے ایسا کیا ہے ہم اس خبر کو نہایت غلط خبر کہینگے یہ اس کا سہرہ پاکستانی آدمی کے سر ہے اور عاصم منیر کو تحفہ ملنا چاہیئے کہ وہ اپنے ہی عوام کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنرلز نے اپنے اندھے فوجی روّیہ کو نہیں بدلا ہے ایسا وہ1971میں کر چکے ہیں کمانڈر انچیف کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسا جنرل کہاں پر تعینات کیا جائے یاد دلاتے چلیں کہ ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں امن اور یکجہتی کے لئے اعظم خان کو بھیجا تھا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو کر وہاں کے لوگوں کا دل جیت چکے تھے کہ بنگلہ دیش کے عوام انہیں اعظم چاچا،(کاکا) کہتے تھے لیکن کسی نے ایوب خان کو غلط مشورہ دیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہاں کے لوگ آپ کو بھول جائیں لہذا ایوب خان نے فوراً اعظم خان کو بلا کر کراچی حوالے کیا وہاں پر بھی اعظم خان اچھے کاموں سے باز نہ آئے، کراچی میں آبادی کو بسانے کا مسئلہ تھا، انہوں نے چھ ماہ میں کورنگی کالونی بنا کر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا یہاں چڑیا والی بات ہے کہ اچھے کام کیلئے اپنا رویہ اور حلیہ بدلو زبان بدلو، مگر ایسا اب کے پاکستان میں ہوتا نظر نہیں آرہا، عمران خان کا جیل میں رہنا اس بات کا ثبوت ہے اچھا لیڈر کبھی جھوٹ کا سہار انہیں لیتا۔ اتفاق سے عوام میں سے یہ پہلا شخص ہے جو جھوٹے اور لٹیروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے وہ اپنا حلیہ نہیں بدلیں گے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور ہمارے جنرلز مسلسل دشمنوں (باہر کے) پر الزام رکھ رہے ہیں اور اپنے عوام پر الزام کہ وہ دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ یہ کس ملک میں نہیں ہوتا کہ عوام سیاست دانوں کے غلط فیصلوں کیخلاف سڑکوں پر نہ آئے ہوں، ہم عاصم منیر سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ فرانس، کناڈا، اسپین، برازیل، ارجنٹینا، چلی، اٹلی، انگلینڈ، امریکہ کیا حکومت نے عوام کو جیل میں بند کیا۔ یہ ضرور ہے کہ پولیس نے انہیں روکا لیکن گولی نہیں چلائی۔ پاکستان کی تاریخ لکھی جا رہی ہے اور اگر حالات بدل گئے تو شاید آنے والی نسلوں کو کچھ یاد نہ رہے، لیکن وہاں کے حالات ایسے ہی رہینگے اور حکمران اور جنرلز باہر سے ہدایات لیتے رہینگے، جس کے عیوض انہیں آئی ایم ایف سے ادھار ملتا رہے گا۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ باہر کے ملک اس حکومت اور جنرلز کی حرکتوں کو نظر انداز کرتے رہینگے، وہ کبھی جیو اور جینے دو، پر عمل نہیں کرینگے۔ افسوس کہ پنجاب کی فوج اور پولیس نے ملک کو اور عوام کو خوفزدہ کر رکھا ہے کہ عوام سب کچھ بھول کر، حلوے، مانڈے میں لگے ہوئے ہیں رمضان شریف کے آغاز سے ہی انہوں نے کھانا شروع کیا ہے، افطار اور سحری، ملک اور بیرون ملک یہ سب دیکھا جا رہا ہے، شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟
پچھلے ہفتہ بہت سی خبریں ملتی رہیں لیکن ہم یہاں جگہ جگہ پارکنگ لائٹس، ریستورنا، اور سائڈ واک پر عید بازار دیکھتے رہے کس کس کا ذکر کریں جس دھوم دھام سے رمضان شریف اور عید سے پہلے جو گہما گہمی دیکھنے کو ملی وہ مثال تھی اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ اپیک تنظیم کے ڈاکٹر اعجاز جو فلاح و بہبود کا کام کرتے رہتے ہیں اور سیاست میں بھی مصروف رہتے ہیں انہوں نے ایک بڑا معرکہ سر کیا کہ 113 سالہ خاتون کو نیویارک لانے میں مدد کی، ہمیں خوشی ہوئی کہ لوگ اب اپنے بزرگوں کو اپنے قریب، اپنے گھر میں رکھنا چاہتے ہیں، ہر نچد کہ 113سال میں کوئی بھی بزرگ پاکستان چھوڑ کر یہاں اپنے آخری دن گزارنے کیوں آئیگا؟ اچھی طرح چاید ہے ہمارے دوست جو یہاں پروفیر تھے اور ریٹائر ہوچکے نے اپنے بیٹے کے گھر میں رہنے کی خواہش ظاہر کی تو صاحبزادے نے یہ کہہ کر ان کی بیوی نہیں چاہتی کہ وہ ساتھ میں رہیں انکار کر دیا جس کے بعد ایک ہفتے کیلئے انہیں ہم نے اپنے پاس رکھا، لیکن اب نیویارک ریاست نے دروازے کھول دیئے ہیں ہر کوئی اپنے والدین کو اپنے دل کے قریب رکھنا چاہتا ہے ہم ڈاکٹر اعجاز کی تعریف کرینگے ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے مرحوم بھائی کے بچوں اور بیوہ کو یہاں لانے کیلئے ان سے مدد لیں۔
ادھر ملک میں رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کو ہم دہشتگرد نہیں سمجھتے پھر یہ بھی کہتا ہے کہ دہشتگرد بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں، مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں ہندوستان ان کی مدد نہیں کریگا، اسے تو فصل کیلئے بس بیج ڈالنا ہیں اور بلوچستان میں جتنا فساد، خود کش حملے، دہشتگردی بڑھے گی اتنا ہی بلوچستان علیحدگی کے قریب ہوتا چلا جائیگا، ہمارے جنرلز کا الزام تراشی کرنے کا شوق ختم ہونا چاہیے، پاکستان میں وہ اپنے ہٹ دھرم روئیے سے امن کی جگہ آپس میں خانہ جنگی کا سامان پیدا کر رہے ہیں سارے جنرلز ایک دوسرے کی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ بالغ ہو جائیں، شرارتیں چھوڑ دیں!!!۔
٭٭٭
٭٭٭