اسلامی ریاست کی ذمہ داری

0
72
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

کہتے ہیں امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے بیت المال پر قبضہ کرکے گندم لوٹ لی۔ خلیفہ وقت نے انہیں گرفتار کرلیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ تابعی بھی ہیں تبیع تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ امام ابوحنفیہ رضی اللہ تعالیٰ کے تقریباً دو سو سال بعد پیدا ہوئے ہیں یہ میں نے عامہ الناس کے علم میں اضافہ کے لئے دیکھ دیا ہے۔ کیونکہ عام آدمی سمجھتا ہے قرآن مجید کے بعد بخاری لکھی گئی ہے جو کام حضرت امام ابوحنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ہے وہ امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے مزید برسبیل تذکرہ لکھ دیا ہے وگرنہ یہ میرا موضوع نہیں ہے حضرت امام کو پتہ چلا تو آپ خلیفہ وقت کے پاس چلے گئے اور فرمایا ان تمام لوگوں کو چھوڑ دیا جائے خلیفہ وقت نے کہا حضرت یہ چور ہیں میں نے ان کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا اسلامی ریاست شرعی ضروریات پورا کر رہی تھی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان عدل وانصاف اگر تو ریاست شرعی ضرورت پورا کر رہی تھی تو ہاٹھ کاٹ دیئے جائیں وگرنہ یہ گندم کا ذخیرہ انہی لوگوں کے عشر سے وصول کیا گیا ہے ان لوگوں نے چوری نہیں کی اپنے مال سے اپنا حق لیا ہے بازار میں آٹا نایاب ہے۔ گندم ناپید ہے تو یہ لوگ کہاں سے کھائیں گے تو صاحبو پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یہاں بھی آٹا ناپید ہے گندم قوت خرید سے باہر ہے بجلی کے بل گردن تک پہنچ چکے ہیں۔ لوگ خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں ون فائیو پر کال کرکے لوگ کہہ رہے ہم چار دن سے بھوکے ہیں ہمیں راشن پہنچائیں وگرنہ ہم خودکشی کر رہے ہیں۔ ریاست کے کرتا دھرتا اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر اور گھروں میں بغیر بل ادا کئے موج کر رہے ہیں۔ چار چار باورچی ہیں لاکھوں میں تنخواہ ہے ان کی بلا جانے آٹا کن بھائو مل رہا ہے بجلی کا بل کتنا آرہا ہے۔ وہ مخلوق خدا کے جمع شدہ ٹیکس پر موجیں کر رہے اور لفظی جمع خرچی کے ساتھ حالات کی سنگینی کا چکر دیکر قربانی مانگ رہے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم نے دفتر میں ایک گورنر کی اور ایک اردلی کی تنخواہ اس طرح برابر کی تھی کہ بچوں کے حساب سے وظیفہ ملتا تھا دفتر میں وہ آقا اور نوکر تھے۔ مگر گھر میں راشن ایک جیسا جاتا تھا اس لئے گورنر قیمتوں سے باخبر تھا۔ گورنر کی ڈیوٹی تھی رات بھیس بدل کر بازار کا جائزہ لے اور مارکیٹ کی اونچ نیچ کو ختم کرے۔ مگر صاحب یہاں تو یہ حالت ہے صدر ہائوس وزیراعظم ہائوس، اعلی عدالتیں ان کی کینٹین کے ریٹ نکالیں اور بازار کے ریٹ دیکھ آپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ بیورو کریسی کبھی کبھی عام آدمی کا مسئلہ حل نہیں کریگی۔ اسکا حل وہی ہے جو امام صاحب کے زمانے میں مخلوق خدا نے کیا۔ امیر وغریب کے لئے ایک ریٹ مقرر کیا جائے۔ہر آدمی اپنی تنخواہ یا اپنی کمائی سے اپنے تمام بل ادا کرے کنٹین صدر ہائوس کی ہو یا سرراہ ڈھابہ ریٹ ایک جیسے ہوں۔ تو بچت کا امکان ہے وگرنہ مخلوق خدا کو روکنا محال ہوجائے گا۔ خدانخواستہ اگر پاکستان ہی نہ رہا تو عیاشی کیسے ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here