ہم نے اپنے گزشتہ کالم کا اختتام ریاست کے عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف اقدامات و منفی رویوں کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ انتخابات 8 فروری کو ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں، ہمارا خدشہ اس جواز پرمبنی تھا کہ ریاست کے کسی بھی حد تک عمران مخالف جانے اور مفرور لاڈلے کو جتانے کیلئے تمام تر حربوں کے باوجود شفاف و منصفانہ انتخابات کے نتائج فیصلہ سازوں کے منصوبے اور مرضی و منشاء کے مطابق آنا مشکل ہی ہونگے، اپنے منصوبے کے مطابق فیصلہ ساز اور متعلقہ ادارے جو کچھ کر رہے ہیں وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ میڈیا میں عمران کے حامی ہی نہیں، غیر جانبدار اینکرز اور تجزیہ کار بھی انتخابات کے التواء کے حوالے سے اظہار کر رہے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ تمام تر مخالفانہ حربوں و ہتھکنڈوں کے باوجود عمران کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آرہا ہے۔ عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف مقدمات، قید، عدالتوں کی یکطرفہ کارروائیوں کیساتھ اب نوبت اس حد کو پہنچی ہے کہ عمران اور اس کی اہلیہ کی کردار کشی کے راستے تلاش کرنے کے ساتھ اس کے ساتھیوں اور کارکنوں پر حملوں اور نقصان پہنچانے کا ارتکاب بھی کیا جا رہا ہے۔ عمران کو بدنام کرنے اور اس کے کردار کو مسخ کرنے کیلئے اداکارہ، ماڈل حاجرہ خان کی کتاب کو منظر عام پر لانے کیساتھ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے انٹرویو، بعد ازاں سول عدالت میں مقدمہ کا ڈرامہ رچایا گیا ہے، یہی نہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن 20 روز میں کرانے کی آڑ میں ایک جانب پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے محروم کرنے تو دوسری جانب عمران کیخلاف ای سی پی کے فیصلے اور نیب، احتساب و دیگر عدالتوں میں کیسز کی بناء پر عمران کو جماعت کی سربراہی یا چیئرمین شپ سے آئوٹ کرنے کی سازش بھی بے معانی نہیں۔ فیصلہ سازوں کی پوری کوشش یہی ہے کہ ان کی چوائس کا لاڈلا اور اس کی جماعت ہی اقتدار میں آئیں۔
ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے نہ صرف اپنے انتخابی پرندوں کیساتھ عمران کے منحرفین کے توسط سے بھی فیصلہ ساز ن لیگ اور لاڈلے بھگوڑے کو کامیابی دلانے کیلئے ہر اقدام کیلئے مستعد ہیں اور کسی صورت بھی اپنے منصوبے کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اس مشن کی کامیابی کے چکر میں اسٹیبلشمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں سندھ سے مسلسل کامیاب ہونیوالی پیپلزپارٹی میں باپ بیٹے کے درمیان سیاسی دراڑیں ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی تاکہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے تعاون سے لاڈلے کی ن لیگ کو سندھ سے بھی سپورٹ دلائی جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی 8 فروری کو فیصلہ سازوں کو اپنے مقصد کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ نوازشریف کی نا اہلی سے اس عرصے میں آئینی و قانونی طور پر عدالتوں سے خاتمے کی ہے کہ اگر 8 فروری کو الیکشن ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کا پراسس آئندہ دو ہفتوں میں شروع ہو جانا ہے۔
انتخابات کے التواء اور اگست، ستمبر میں منعقد کرانے کی افواہوں کی ایک وجہ تو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں دوسری حقیقت یہ کہ گزشتہ ہفتہ کے پی میں پی ٹی آئی کے چار جگہوں پر ورکرز کنونشنز نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ آئی پی پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے جنم کے باوجود آج بھی خیبرپختونخواہ عمران اور پی ٹی آئی کا قلعہ ہے۔ نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کا تسلسل بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ نگراں وزیراعظم کا حالیہ دورہ امارات اور اربوں ڈالرز کے معاشی و اسٹرٹیجک معاہدے اور آرمی چیف کے ہمراہ امارات کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کی خبریں بھی اس بات کی مظہر نظر آتی ہیں کہ نگراں حکومتوں کی مدت جلد پوری نہیں ہونی ہے ہمارا تجزیاتی خلاصہ تو یہ ہے کہ الیکشن کا انعقاد جب بھی ہوگا عمران اور پی ٹی آئی کے بغیر نہیں ہو سکے گا، خواہ فروری میں ہو، اگست، ستمبر میں ہو یا برسوں بعد سلیکٹڈ، لاڈلے اور پسندیدہ کا کھیل عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتا، فیصلہ سازوں اور مقتدرین سے ہماری یہی درخواست ہے کہ عوام کی خواہشات و منصفانہ انتخابات ہی ملکی سلامتی، خوشحالی و وحدت کا ذریعہ ہیں۔ 75 برسوں سے پسند و ناپسند کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔
٭٭٭