نگران وزیراعظم کی اس ایک ستر نے عوامی غیض وغضب کو دعوت دیدی ہے پاکستان کے کونے کونے سے احتجاج اور عوامی مذمت کی آوازیں نکل پڑیں۔ زخموں پر مرہم نہیں رکھتے ہو تو کم ازکم نمک پاشی تو نہیں کرو بھائی؟ نہایت ہی ظالمانہ بات کی ہے کاکڑ صاحب نے!! اسکے بجائے یہی کہتے کہ ہمیں احساس ہے لوگوں کی تنگی کا مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی تھوڑی سی اشک شرئی ہوجاتی اقتدار کے ایوانوں کی فضا ہی کمبخت کچھ اسی سے اچھے اچھے ہمدرد لوگوں میں فرعونیت پیدا کردیتی ہے۔ اب انتخابات کا انعقاد بھی مشکوک ہوجاتا جارہا ہے۔ ابلاغ عامہ میں بھی عجیب وغریب خبریں پھیلائی جارہی ہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ جان بوجھ کر کروایا جارہا ہے یا دشمنان جمہور غلط خبریں پھیلا کر عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالات کو خراب کرکے ایمرجنسی لگانے کا جواز بنایا جارہا ہے اردگرد کے دشمنوں میں گھرا ہے چوبیس کروڑ کا ملک اب پر اب بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے بقول مرحومہ طارق عزیز کے غلطی کی گنجائش نشتہ کی مردم شماری کے منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی ایک آئینی وقانونی تقاضہ ہے لیکن اسی سارے عمل کو فوری نہیں تو تیزی سے مکمل کروایا جاسکتا ہے۔ ادھر ابلاغ عامہ میں ذمہ دار اداروں نے بھھی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ خبر چلا دی کہ اداروں کی تحریک انصاف کے زیر حراست رہنما سے بات ہوگئی ہے اسے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت دیدی گئی ہے ڈالر ویسے ہی راکٹ بن گیا ہے ایسی خبروں سے ڈالر کی تو مدد ہوسکتی ہے ملک کی نہیں۔ اہم مسائل میں گھرا ملک ایسی غیر ذمہ دار رویئے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے بے بنیاد افواہوں کو ابلاغ عامہ کے ذریعے پھیلانے بھی سنگین جرم ہے نہیں تو ہونا چاہئے۔ شخص آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر بھی جمہوری معاشروں میں کچھ قدغین لاگو ہیں تاکہ ملکی معیشت کو تباہ کرنے والی خبروں اور ذرائعہ کو سختی سے نپٹا جائے۔ اس ساری صورتحال میں اب تک جیل سے بچنے والے سیاستدانوں نے بھی جیل دیکھ لی ہے اور کچھ نہیں تو پابند سلاسل ہو کر غریبوں اور ناداروں کی زندگی کی ایک جھلک تو ان لوگوں نے بھی دیکھ لی جو کبھی اپنے آپ کو UNTOUCHABLWسمجھتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب میاں نوازشریف پہلی مرتبہ جیل گئے تھے تو انہوں نے بیان دیا تھا اتنا برا کھانا کھلایا جاتا رہا ہے قیدیوں کو اس کے بعد جب اقتدار نصیب ہوا تو میاں صاحبان نے جیل کے کھانے کی صورتحال میں تو بہتری کردی لیکن ہمارے ملک میں اصلاحات بھی دیرپا نہیں ہوئے بلکہ انہیں بھی آہستہ آہستہ بے اثر کردیا جاتا ہے اب جیل کے افسران کے اپنے گھروں کے کھانے تو نہایت اچھے ہوگئے ہیں قیدی پھر وہی بدمزہ دال اور ٹھنڈی روٹیاں جو جلد سوکھ بھی جاتیں ہیں اسی سے اپنے پیٹ کی آگ بجھائے رہنے پر مجبور ہیں۔ جیلوں میں جیل کے عملے کے احتساب کا کوئی نظام نہیں جو قیدی جیلروں کی جیبیں نہیں بھر پائے انہیں بند وارڈمیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کے پھینک دیا جاتا ہے۔ جیل کے عملے کیلئے سزا جزا کا کوئی نظام نہیں۔ قیدی کو سزا دینے کیلئے جرم کا ثابت ہونا ضروری نہیں جب پورے ملک میں لاقانونیت کا راج ہو تو جیلوں میں کیا کچھ ہونا باقی ہیں۔ بہرحال بات جلد انتخابات کی ہو رہی تھی جو نہایت ضروری ہے ورنہ زمان پارک والے پیر اور پیرنی کا بیانیہ زور پکڑ لے گا۔ طاقتور حلقوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حالات ابھی نارمل نہیں ہیں اور بڑھتی ہوئی عوامی بیچینی کسی آگ بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے اسلئے مناسب یہ ہوگا کہ وہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ جلد کروا کر اپنے آئینی فرائض کی طرف لوٹ جائیں اسی میں انکی عزت اور وقار کا تسلسل قائم رہیگا۔ اب حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ طاقتور کاندھے بھی ان حالات کو سنبھالا دینے کی قوت نہیں رکھتے ویسے ہی منفی پروپیگنڈہ سوشل میڈیا کے ذریعے قابو سے باہر ہے اس منفی روش کو عوامی طاقت اور حمایت سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ ورنہ شاہد ایران اور حسنی مبارک جیسے مضبوط لوگ بھی عوامی سیلاب کے سامنے ٹھہر نہیں سکے۔ہمارے دشمن تو ویسے ہی ایسے کسی لٹکرائو کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ایک صاف ستھرے انتخابات کا انعقاد ہی اس صورتحال سے نبپٹنے کا بہترین طریقہ ہے۔ کوئی ایک جماعت تو موجودہ صورتحال سے نپٹنے کی طاقت اور حمایت نہیں رکھتی ایک اچھا اور مثبت اتحاد ہی جیسے چھوٹے صوبوں کی حمایت بھی حاصل ہو وہ بہتر طریقہ سے نمٹ سکتا ہے اور ملک کو اس منجدھار سے نکال سکتا ہے۔
٭٭٭٭