وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے کی ترغیب دیتا تھا

0
56

جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کا سونے کاہار پہنایا گیا تھا ۔
اسلام کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔!
کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دئیے پھر معتصم سے کہا :” کھا، پیٹ بھر کر کھا، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھا ” بغداد کا تاج دار بیچارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔بولا ” میں سونا کیسے کھاؤں؟ ” ہلاکو نے فورا کہا : ” پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟
وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا،کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ” تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟”
خلیفہ نے تسف سے جواب دیا: ” اللہ کی یہی مرضی تھی ” ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ” پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی ” ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔۔۔! ہلاکو نے کہا ” آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔۔۔۔!”اور ایسا ہی ہوا۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے محل،لباس،ہیرے،جواہرات اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔ذرا تصور کریں۔! جب یورپ کے چپیچپے پر تجربہ گاہیںاور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا اور اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا! جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہیتھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی۔یاد رکھیں جن کو آج بھی دولت سے لگا اور طاغوت کی غلامی کا چسکا ہے ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔سوئی ہوئی امت مسلمہ کو بیدار کرنے کیلئے اس تحریر کو مختلف گروپس میں شیئر کردیجیئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here