جس دن ہندوستان چاند پر پہنچا میری ایک پرانی انڈئین ایسوسی ایٹ نے فیس بک پر پوسٹ لگائی کے بھارت نے مشن مکمل کر لیا میں نے اس کو مبارک باد دی اس کا جواب تھا کہ آپ لوگ پیچھے رہ گئے ہیں مجھ کو اس کا جواب سر پر پتھر کی طرح لگا ایک دم مجھے طاہر کا شعر یاد آگیا!
دوستوں کے پھول بھی پتھر لگے طاہر مجھے
رات بھر احساس کی دیوار سے لپٹا رہا
میں نے اس کو جواب میں لکھا کہ میری مبارک باد کا سہی جواب تھا شکریہ خیر اس کو احساس ہو گیا اور اس نے شکریہ کہا مجھے ہندوں کے ساتھ کام کرتے سال ہو گئے بلکہ یوں کہ لیجئے کے بھارتی لوگوں کے ساتھ میں جب امریکہ آیا تو سب سے پہلی نوکری مجھ کو سونا اپلائینسز اسٹور پر ملی جس کے مالک راج چاولہ اور ان کے بھائی تھے ہم ایک دو پاکستانی مسلمان ان کے پاس ملازم تھے جبکہ زیادہ تعداد ہندوں اور سکھوں کی تھی مالک تو دل کے بہت اچھے اور ملن ساز تھے لیکن کافی عملہ بڑا تنگ نظر تھا چونکہ ہمارے پاس کوئی چوائیس نہیں تھی لہازا سر جھکا کر اپنا کام کرتے رہے اس کے بعد میری دوسری نوکری ایم اینڈ بی اپلائیسز کے پاس ملی اس کے دو مالک تھے ایک سردار تھے اندر سنگھ بندرا جو انڈیا کے کرکٹ بورڈ کے چئیرمین آئی ایس بندرا کے بڑے بھائی تھے اور دوسرے مونی منجال دونوں ہی بڑی پروکار شخصییت کے مالک تھے خاص طور پر سردار اندر سنگھ بندرا جن کے ساتھ آج تک میرا برخوردار والا رشتہ ہے بلکہ میں ان کو گاڈ فادر مخاطب کرتا ہوں ان کو پاکستان جانے کا بھی کئی بار شرف حاصل ہے ان کا تعلق سانگلہ ہل سے تھا جب مجید نظامی صاحب نیو یارک تشریف لائے تو میں نے ان کی ملاقات کروائی دونو ں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے ان دونوں کی خوشی کا سبب مٹی سے پیار تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ بھارتیوں میں ہم مسلمانوں کے لئے دل میں ایک تنگ نظری کا غبار جمع ہے جس کا وہ گاہے بگاہے اظہار کرتے رہتے ہیں اکثر میرے ساتھ سیاست اور اکانومی کے حوالے سے چوٹ کراتے رہتے ہیں اور کیوں نہ لگائیں کہ ہمارے حکمرانوں نے آج جس حال پر پاکستان کو پہنچا دیا ہے ہندوں نے ہمیں کیا شرمندہ کرنا ہے ہم لوگ خود شرمندگی کے تلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ جو مہینے جس کرب سے پاکستان اور اس کے کروڑ عوام گزر رہے ہیں اب تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کس ملک کا نام ہے یہ وہ ملک لگتا ہی نہیں ہے جو حضرت قائید اعظم نے بنایا تھا ہم لوگوں کے لئے –
قارئین وطن ! ایک زمانہ تھا عدلیہ ہمارا وقار ہوا کرتا تھا جس کے جج صاحبان میں اے آر کارنیلئیس ، کیکاس سر عبدل رشید حمود ارحمان کیانی چند ایک اور نام ذہن سے اترے ہوئے ہیں لیکن آج کے جج صاحبان پر ایک نظر ڈالیں ان کے معیار کا پتہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے فیصلوں سے ہوتا ہے سپریم کورٹ کے چیف سے لے کر نچلی عدالتوں کے جج صاحبان کے رویوں اور فیصلوں سے ہی ہو جاتا ہے کہ کتنے پست قد لوگ ہیں یہ جن کو اپنے علم اور قلم پر اعتماد نہیں ہے بلکہ گولی کے خوف میں جی رہے ہیں جج دلاور کا لکھا ہوا فیصلہ کسی بیرک میں لکھا گیا ہے ملک مافیا کی زد میں ہے یا ان کے پشت پناہی کرنے والے خاکی لباسوں میں لپٹے ہوئے صاحب بہادروں کی زد میں ہے کسی دل جلے نے ایک کلپ بیجھا کہ چار ج میوں نے پاکستان کو برباد کر دیا ہے جرنیل جج جرنلسٹ جاگیردار آج جس حال میں ملک پہنچا ہوا ہے اس میں کوئی شق نہیں کہ یہ چار لوگ ہماری رسوائی کا باعث بنے جن کی وجہ سے ہندوں بھی ہمارا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں سیاسی بدحالی معاشی بدحالی کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں ہم ایک مقروض قوم اور وہ بام ترقی پر کھڑی ایک بڑی قوم بن گئے ہیں ہائے میرے قائد اعظم کو کس جرم میں یہ چھوٹی قوم ملی جبکہ بتوں کی پوجا کرنے والے چاند پر پہنچے ہوئے ہیں جس کے بارے ساغر صدیقی نے کچھ ایسے کہا!
تجھ کو ملے ہیں قریہ مہتاب میں گڑھے
مجھ کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں
خیر ہر قوم ہر فرد ہر ملک کو ان کی کامیابیوں کو سراہنا چاہئے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو جذبہ اور دل بڑے رکھنے چاہئے، قارئین وطن! اگست تو ختم ہو گیا امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں نے ڈوبتے پاکستان کی پروا کئے بغیر جہاں غربت کے ہاتھوں کہ ماں باپ اپنے بچوں کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکے اور وہ خود کشی کر رہے ہیں، بھوک تو بھوک بجلی کے بل جو ہزاروں میں آ رہے ہیں وہ بھی خود کشی کا سبب بنے ہوئے ہیں لیکن میلے ٹھیلوں کے ٹھیکیداران نے خوب میلے سجائے اور اہل وطن کو باور کروایا کہ آپ کی بھوک پیاس ہماری ذمہ داری نہیں ہے اگر جرنیل جج سیاسی مافیا اور جرنلسٹ پیسے کما سکتے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں ہمارا دانہ پانی میلے ٹھیلے ہیں اچھا تو یہ ہوتا کہ ان میلوں میں شریک عوام الناس وائیٹ ہاس کے سامنے بھر پور مظاہرہ کرتے اور وہاں بھیٹے ہوئے سپر پاور کے حکمران کو جتاتے کہ آپ لوگوں کی مداخلت سے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ان کو بتاتے جو آپ ہم پر ہندوستان کی بالا دستی صرف اس لئے مسلط کرنا چاہتے ہو کہ وہ چین کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑے ہوں لیکن امریکن انکل سیم کو بتانا چاہیے کہ مشاہدہ یہ ہی بتاتا ہے کہ جتنی مرضی ہندوستان میں ہوا بھر دو چین کو ابھرتے کوئی زمینی طاقت نہیں روک سکتی اور ایک دن پاکستان پر بھی سویرا نازل ہو گا آپ جتنا مرضی فوجی جبر کے ذریعے ہم پر مافیائی حکمران مسلط کرتے رہیں کسی نے صحی کہا ہے !
تڑپ تڑپ کر شب غم گزارنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہ رہی ہے سب اچھا
انشاللہ سب اچھا ہوگا سال کافی لمبا وقت ہوتا ہے جلد ہم نئی صبح کی کرن دیکھیں گے پاکستان زندہ باد –