حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ جب مدینہ کی آبادی سلع کی پہاڑی تک پہنچ جائے تو تم ملک شام چلے جانا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت میں پھیلا کے مطابق فوجی چھانیاں قائم ہونے لگیں تو حضرت ابوذر نے اپنا نام دمشق کی فوجی چھانی کے لیے لکھوایا، وہاں آباد ہونے کے بعد بھی آپ نے اپنا زاہدانہ رہن سہن برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو بھی وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رکھا، اور مالدار طبقے کو بطور خاص مال خرچ کرنے، اور غریبوں کی مدد کرنے کی تلقین کرتے۔ آپ سونا چاندی اور مال و دولت جمع کرنے کو کنز سے تعبیر کرتے تھے، آیت والذین یکنزون الذھب والفص کا مصداق قرار دیتے۔ وہ احادیث بھی سناتے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بہ روز قیامت جمع شدہ سونے اور چاندی کو گرم کر کے جمع کرنے والے کے جسم پر داغا جائے گا۔مسئلہ کنز پر آپ کی رائے یہ تھی کہ (1) سونے چاندی کو جمع کرنے کی بجائے یا تو اسے اس طرح استعمال میں لایا جائے تاکہ ضروریات پوری ہو سکیں، یا (2) پھر اس سے ایسا مال تجارت خریدیں جس میں نمو اور بڑھوتری ہو سکے، اور (3) پھر بھی اگر اللہ نے وسعت دی ہوئی ہے تو اس مال کو لوگوں میں بانٹ کر آخرت کے لیے تجارت کی جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ آپ کوئی صورت جائز نہیں سمجھتے تھے، اور سونے چاندی کو جمع کر کے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جانے کے سخت خلاف تھے، اور یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ میرے محبوب نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کے پاس بکری ہو اس سے بہتر ہے جس کے پاس احد کے پہاڑ برابر سونا ہو اور وہ پیچھے چھوڑ جائے (اور کوئی فائدہ نہ اٹھائے)۔ جس کا یہی مطلب ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے کی بجائے مال و دولت کو گردش میں لایا جائے تاکہ اس کا فائدہ مال والے ہو بھی پہنچے اور سوسائٹی کو بھی۔فتوحات کے بعد سونا چاندی کی ریل پیل اور طلائی ونقرئی برتنوں کا استعمال دیکھ کر آپ سخت برہم ہوتے، بلکہ آپ تو سونا چاندی کو زیور کے طور پر استعمال کرنے کو بھی ناپسند کرتے تھے، اور یہ حدیث بیان کرتے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر قحط کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی کیا وقت ہو گا جب سونا چاندی تم میں عام ہو گا، ساتھ ہی فرمایا کہ کاش اس وقت میری امت سونے کو زیور نہ بنائے۔اس حدیث سے اگرچہ سونے کو بطور زیور استعمال کی حرمت ثابت نہیں ہوتی لیکن حضرت ابوذر جیسے نبوت کے رمز شناسوں کیلئے تو یہ دلیل بھی کافی تھی۔
بہرحال، متواتر مسجدوں اور بازاروں میں اس طرح کے بیانات سے دمشق میں برہمی پھیل گئی اور غریب طبقہ کے لوگوں نے امیروں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جن لوگوں نے اپنی بیویوں کو بہت زیادہ زیور پہنا دیا تھا اور اس کی زکو بھی نہیں دیتے تھے ان پر حضرت ابوذر کا فتوی ناگوار گزرتا۔یہاں ضمنا یہ مسئلہ بھی جاننا چاہیے فقہ حنفی میں زیور کی زکو ادا کرتے رہنے سے اس کا استعمال جائز رہتا ہے، حنفیہ کی یہ رائے حضرت ابوذر کے موقف کے قریب تر ہے، جبکہ دیگر ائمہ دوسری زیر استعمال اشیا کی طرح زیور پر بھی زکو کو لازمی نہیں سمجھتے، جیسا کہ حضرت ابن عمر جیسے بعض صحابہ کا موقف ہے۔ہوتے ہوتے بات امیر شام حضرت معاویہ تک پہنچی، انہوں نے افہام وتفہیم کی غرض سے بلوا کر پوچھا کہ یہ “مسئلہ کنز” کہاں سے نکالا ہے؟ جواب میں حضرت ابوذر نہیں آیت کنز پیش کر دی، حضرت معاویہ نے کہا کہ اس کا تعلق تو یہود و نصاری کے رہبان سے ہے لیکن حضرت ابوذر کا موقف تھا کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ دونوں صحابیوں کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ بے نتیجہ رہا اور دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ بعد میں حضرت معاویہ نے سمجھانے کی غرض سے صحابہ کا ایک وفد بھی بھیجا جس میں حضرت عبادہ بن صامت جیسے بزرگ صحابی کو بھی شامل کیا، لیکن یہ وفد بھی انہیں قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ارباب ثروت کی طرف سے شکایات کا سلسلہ جاری رہا کہ ہم جہاں سے گزرتے ہیں لوگ تنگ کرتے ہیں اور آیت کنز پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، جب شکایات بڑھ گئیں تو حضرت معاویہ نے ملک میں پائے جانے والے اضطراب کو رفع کرنے کے لیے دوسرا طریقہ اپنا۔ چونکہ مذاکرات میں ناکامی ہو چکی تھی اس لیے اب آپ نے اقتدار کی طاقت سے مسئلہ حل کرنا چاہا اور منادی کرا دی کہ کوئی شخص بھی حضرت ابوذر کی مجلس میں نہ جائے، جس کی پاسداری کرتے ہوئے حضرت ابوذر تو اپنے پاس آنے والوں کو خود ہی اٹھا دیتے اور کہتے کہ امیر نے آپ کو میری مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا ہے اور ساتھ ہی وہ حدیث بھی سناتے کہ مجھے میرے محبوب نہ وصیت کی تھی کہ امیر کی ہمیشہ اطاعت کرنا خواہ وہ گوش بریدہ غلام ہی کیوں نہ ہو۔
یہ سرکاری حکمنامہ لوگوں کے لیے تھا نہ کہ حضرت ابوذر کے لیے، انھیں وعظ کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، لیکن لوگ اس کے باوجود دور دور سے آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے اور مجلس میں بیٹھے رہتے، اور پھر حضرت ابوذر اپنا وعظ ونصیحت کرتے رہتے۔
حضرت معاویہ نے جب دیکھا کہ یہ سلسلہ رک ہی نہیں رہا اور وہ حضرت ابوذر کے ادب میں اقتدار کی طاقت سے انھیں روکنا نہیں چاہتے تھے، لہذا امیر المومنین حضرت عثمان کو خط لکھ بھیجا کہ حضرت ابوذر کی وجہ سے یہاں کافی اضطراب پایا جاتا ہے، اس لیے آپ نھیں مدینہ منورہ بلا لیں۔
چنانچہ حضرت عثمان نے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک قاصد بھیجا اور حکم دیا کہ ابھی مدینہ آ جائیں۔
حضرت ابوذر حکم ملتے ہی تنہا روانہ ہو گئے، مدینہ منورہ پہنچے تو آپ سے محبت کرنے والوں کا وہاں بھی تانتا بن گیا، لوگ آتے اور وعظ نصیحت کی درخواست کرتے، آپ دوسری نصیحتوں کے ضمن میں مسئلہ کنز بھی بیان فرماتے جس سے مدینہ منورہ میں بھی دمشق جیسی صورتحال پیدا ہو گئی، حضرت عثمان نے انہیں طلب کیا اور کعب احبار سے کہا کہ انھیں سمجھا، جس پر انہوں نے سمجھانا شروع کیا کہ مال و دولت جمع کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے اور اگر یہ گناہ ہوتا تو قرآن میں وراثت کے احکام ہی کیوں ہوتے؟
کعب احبار حضور کی وفات کے بعد یہودیت سے اسلام کی طرف آئے تھے اور صحابیت کا شرف بھی حاصل نہیں تھا، ایسے شخص کی طرف سے ابوذر جیسے جلیل القدر صحابی کو سمجھانے کی بات انھیں ناگوار گزری اور غصے سے چھڑی لے کر ان کے پیچھے دوڑے اور ایک ضرب بھی لگائی، حضرت عثمان بھی موجود تھے، انھیں حضرت ابوذر کا یہ طرز عمل پسند نہیں آیا اور ناراض ہو گئے، بعد میں حضرت ابوذر انھیں منانے آئے اور کہا کہ مجھ پر آپ کی اطاعت لازم ہے، آپ جو بھی حکم کریں گے میں تعمیل کروں گا۔
بعض مرخین نے لکھا ہے کہ اس موقع پرحضرت عثمان نے انھیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا لیکن طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت ابوذر نے خود کہا تھا کہ مدینہ کی آبادی سلع تک پہنچ چکی ہے اس لیے مجھے میرے محبوب کی طرف سے یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر حضرت عثمان نے انھیں قرب و جوار میں ہی کسی جگہ گوشہ نشین ہونے کا مشورہ دیا۔حضرت ابوذر نے ربذہ جانے کی اجازت چاہی چنانچہ ہجرت در ہجرت کرنے والا زہد عیسوی کا یہ کامل نمونہ گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے کے لیے ربذہ منتقل ہو گیا۔
٭٭٭