کیوبا میزائل بحران کا مناسب جواب!!!

0
112
کامل احمر

1942میں کیوبا میں اس وقت کی سوویت یونین نے میزائل کی تنصیب کا ارادہ کیا تھا اور اس وقت کے امریکی صدر نے کھلی وارننگ دی تھی۔صدر کینڈی کا کہنا تھا نہیں میرے بیک یارڈ میں نہیں ہوسکتا۔خیال رہے کیوبا کمیونزم کا حامی تھا اور فیڈرل کاسٹرو افغانستان میں صدر بابرک کارمل کی طرح روس کا حامی تھا۔دونوں ملکوں نے سوویت یونین سے مدد مانگی تھی۔افغانستان میں روس کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔لیکن کیوبا میں ان کا اثر بہت گہرا تھا۔اور صدر کینڈی نے نوے میل کے فاصلے پر میزائل کی تنصیبات کا سخت ایکشن لیا تھا۔کیوبا کی بحری ناکہ بندی کردی تھی دنیا سمجھ رہی تھی کہ تیسری جنگ عظیم شروع ہوسکتی ہے۔13دن کی گفت وشنید کے بعد دونوں ملکو کے درمیان طے پایا کہ روس ایسا نہیں کریگااور امریکہ کیوبا پر قبضہ نہیں کریگا نہ صرف یہ بلکہ ترکی میں امریکی میزائل کی تنصیب کو ختم کردیگا۔گو یہ بات خفیہ رکھی گئی تھی۔اور اب جب کہ یوکرین کو نیٹو(NATO)کا ممبر بننے کی تیاری تھی اور 44سال صدر زیلینسکی کا جھائو یورپ اور امریکہ کے ساتھ تھا۔روس کے صدر پیوٹن نے سخت ایکشن لیتے ہوئے امریکی صدر کینڈی کی وارننگ یاد دلا دی۔میرے بیک بارڈ میں نیٹو کی فوجیں ہرگز نہیں آسکتیں۔دیکھا جائے تو صدر پیوٹن اپنی جگہ درست ہے۔ایک بار پھر اسے اپنے بازو دکھانے کا موقعہ ملا ہے۔اور آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ اسکی اگلی قسط ہے اس سے پہلے وہ کریمیا کو علیحدہ کرچکا ہے۔ہر چند کے پورے یورپ سوئیزرلینڈ سمیت امریکہ نے193ملکوں کو اپنے ساتھ کرکے روس کو کا حقہ پانی بند کردیا ہے۔ترسیل زرسے سے لے کر پیٹرول اور گیس کی خریدوفروخت پر پابندی بنکوں سے لین دین بند ڈالرز کے ذریعے حد تو یہ کہ پیوٹن کے ذاتی اکائونٹ کو بھی بلاک کردیا ہے۔روس کا یہ ہی کہنا ہے کہ یوکرین وعدہ کرے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا۔یہ پہلا واقعہ ہے کہ پوری دنیا ایک طرف اور روس ایک طرف سوائے انڈیا کے جن کا جھکا روس اور یوکرین کی طرف ہے اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے دونوں ملکوں سے انڈیا کے کافی کاروبار ہیں اس کے علاوہ یوکرین میں18ہزار سے زیادہ طلباء سائنس اور میڈیکل کے شعبہ میں زیر تعلیم ہیں لہٰذا مودی اپنے مفاد کے تحت ایسا کر رہا ہے ایسا کرکے اسے جواز ملتا ہے کہ وہ بھی کشمیر پر اپنا قبضہ رکھے گا۔اور انتظار میں ہے روس یوکرین پر قبضہ کرے فی الحال انڈیا میں وہ الیکشن میں مصروف ہے البتہ پیوٹن کو فون کرکے پوچھا ہے کہ اگر روس چاہے تو وہ دونوں میں صلاح صفائی کراسکتا ہے۔دوسری طرف اس نے انڈیا ٹوڈے کی پوری ٹیم کو یوکرین میں بھیج کر دعویٰ کیا ہے کہ وہ واحد چینل ہے جو یوکرین میں روسی قبضہ کی خبریں دے رہا ہے۔ایک جگہ بیٹھ کر جب کہCNNبھی وہاں موجود ہے۔اور یورپ کے دوسرے چینل اس بارے میں لکھ کر ہم وقت برباد نہیں کرنا چاہتے کہ ہم اسے انڈیا کا بھونپو کہینگے جو بتا رہا ہے یوکرین روس پر حاوی ہے مودی ایک چالاک لومڑی کا کردار ادا کر رہا ہے۔آج پانچواں دن ہے روس اور یوکرین میں جنگ کا شروع میں یوکرین کے صدر نے روس سے معاملات طے کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن یورپ اور امریکہ نے چڑھانے میں اور کافی تعداد میں جنگی سامان کے علاوہ مالی امداد ملنے کے بعد صدر زیلینسکی کے ارادے ڈگمگا رہے ہیں پہلے اس کا کہنا تھا بغیر شرط کے بات چیت کے لئے تیار ہے۔اور آج دونوں ملکوں کے مندوب بیلاروس میں ملے ہیں کیا بات ہوئی؟اس کا انکشاف نہیں ہوا ہے۔
پیر کے دن193ممبران کا جنرل اسمبلی میں افلاس ہوا تھا سوائے روس کو دھمکیاں دینے کے کوئی دوسری بات نہیں تھی ادھر جنگ کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں اور یوکرین سے5لاکھ لوگوں کا انخلا پڑوسی ملکوں میں ہوچکا ہے۔باقی لوگ دارالخلافہ کیو میں میٹرو اسٹیشن اور دوسرے شیلٹرز میں جان بچانے کے لئے چلے گئے ہیں یوکرین کے صدر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ساڑھے چار ہزار روسیوں کو مار گرایا ہے۔خیال رہے جنگ کے دوران مخالفین ایسے ہی دعوے کرتے ہیں تاکہ عوام کا مورال بلند رہے۔ویسے یوکرین کے لوگوں کا مورال بلند ہے شروع میں ہی وزارت دفاع کی طرف18ہزار بندوقین، شہریوں میں بانٹ دی گئی ہیں۔
صدر زیلینسکی چیخ چیخ کر یورپین ممالک کو مداخلت کرنے پر زور دے رہا ہے شاید اس جو ان صدر کو معلوم نہیں وہ مداخلت نہیں کرینگے روس نے کھلی وارننگ دی ہے۔اور نہ صرف یہ بلکہ اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو بھی استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔یوکرین کے عوام روس کے خلاف ہیں۔انہیں مغرب کی آب وہوا راس آگئی ہے۔اور چونکہ یوکرین پہلے کے سوویت یونین کے وقت میں بھی جنگی سامان جس میں لاتعداد ومیزائل شامل ہیں۔روس کو ان تنصیبات کا علم ہے خاص کر صدر پیوٹن جو اس زمانے میںKGBکے سربراہ تھے۔اور اپنے ارادوں میں کوئی ردوبدل ن ہیں کرینگے۔چین اخلاقی طور پر روس کے ساتھ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یوکرائن تن تنہا روس کی اپنے سے دس گنا طاقت کا مقابلہ کرسکے گا۔ہمارے خیال میں یہ ممکن نہ ہوگا اور آپ یوکرین کے صدر زیلینسکی کے چہرے پر آئی پریشانی کے آثار دیکھ سکتے ہیں وہ اگر ریگن کی طرح سنجیدہ اداکار ہوتے تو بات کچھ اور تھی لیکن ہم اس نوجوان کو اس کی ہمت کی داد دینگے کہ وہ کیو میں بلڈنگ سے باہر اپنے وزراء کے ساتھ روس کو بتا رہا تھا۔ہم یہیں ہیں کوئی ملک چھوڑ کر نہیں گیا ہے دیکھ لو اور جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو یہ لکھتے وقت یوکرائن کے دارالخلافہ کو روسی فوجوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور انکے سپاہی گلی گلی،بلڈنگ میں سے روسی فوجیوں کی تاک میں ہیں۔ابھی تک دونوں جانب کی فوجوں میں گھمسان کا رن نہیں پڑا ہے۔
یورپ اور امریکہ ہمیشہ کی طرح اپنے مفاد میں رہے ہیں اس جنگ سے بھی بہت سی کمپنیاں فائدہ اٹھائینگی۔خاص طور پر ہتھیار بنانے والے خوش ہیں امریکہ نے خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں۔اسرائیل خاموش ہے کہ یہ سب اس کی مرضی کے مطابق ہے ایسا تو ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔کہ اقوام متحدہ کو مغرب ایک طوائف کی طرح استعمال کرتا ہے اپنے مفاد میں انسانیت اور امن کے لئے کا ڈھونگ ہے ہم عراق، شام، لیبیا، یمن اور ایران کے معاملے میں اقوام متحدہ کا کردار دیکھ چکے ہیں۔دکھاوے کے لئے وہ قرار داد تو پاس کرواتے ہیں۔لیکن اس پر عمل درآمد کرانا نہیں چاہتے یا کرا نہیں سکتے، کشمیر کی قرارداد ہم نہیں بھولے اس کا حال پاکستان کی عدلیہ کی مانند ہے۔یاد آیا عمران خان روسی حملے کے دوسرے دن صدر پیوٹن سے ہاتھ ملا رہے تھے۔صدر اوبامہ تو مصر کی یونیورسٹی میں اپنے کہے کا پاس نہ رکھ سکے اور نوبل پرائز لے اُڑے لیکن صدر بائیڈین کو یاد ہے ہر ملک کو اپنے طور پر جینے کا حق ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here