سیدہ خدیجہ بنت خویلِد،جزیرہ عرب میں متوول ترین بی بی تھیںجن کی ولادت خدیجہ الکبری و ام المومنین کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرم کی اولین زوجہ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہ کی مادر گرامی ہیں۔آپ نے بعثت سے پہلے حضرت محمد کے ساتھ شادی کی۔ آپ آنحضرت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو طاہرہ، زکیہ، مرضیہ، صدیقہ، سیدہ نسا قریش ، خیرالنسا اور باعظمت خاتون کے القاب اور ام المومنین کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے ۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کی۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی مالی امداد کی بدولت رسول خداۖ تقریبا غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ خداوند متعال آپ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ووجد عائِلا فاغن(ترجمہ: (اورخدا نے)آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا رسول خداۖ خود بھی فرمایا کرتے تھے:
ما نفعنِی مال قط ما نفعنی(او مِثل ما نفعنی)مال خدیج کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ کی دولت نے پہنچایا۔ رسول خداۖ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواوں کے مسائل حل کئے۔شعب ابی طالب کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی دولت بنی ہاشم اور بنی المطلب کی امداد میں صرف ہوئی یہاں تک کی احادیث میں آیا ہے کہ:
انفق ابو طالب وخدیج جمیع مالہما”ابو طالب اور خدیجہ نے اپنا پورا مال اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں خرچ کیا۔شعب ابی طالب میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو پہنچا دیتا تھا۔یہ بخشش اس قدر قابل قدر اور خالصانہ تھی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کرتے ہوئے اس نیک کام کو اپنی طرف سے اپنے حبیب حضرت محمدۖ کو عطا کردہ نعمات میں شمار فرمایا۔ پیغمبر اکرم ۖبھی اس عظیم المرتبت خاتون کی بخشندگی اور ایثار کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔تاریخی مآخذ میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی تاریخ وفات کو بعثت کا دسواں سال یعنی ہجرت مدینہ سے 3 سال پہلے قرار دیا ہے۔ بعض مصادر میں ہے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا سال وفات جناب حضرت ابو طالب علیہ السلام کا سال وفات ہی ہے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا حضرت ابو طالب علیہ السلام کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کر گئی ہیں۔
مورخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ رمضان 10 بعثت ہے۔ پیغمبر اکرم ۖکے چچا جناب حضرت ابوطالب علیہ السلام بھی اسی سال رحلت کر گئے تھے لہٰذا پیغمبر اکرم ۖنے اس سال کو عام الحزن کا نام دیا۔اسلامی احادیث کے مطابق رسول اللہ ۖنے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی (کوہ حجون)کے دامن میں، مقبرہ معلی(جنت المعلی)میںسپرد خاک کیا۔
٭٭٭