بلا شبہ سفرِ حج دعائوں اور مناجاتوں سے عبارت ایک ایسا موسمِ بہار ہے جو ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کیلئے زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے۔ فرض حج ادا کرنے کے بعد جتنے بھی مزید حج کرنے کے مواقع ملیں، وہ اس مسلمان کیلئے ثواب کا باعث تو یقینا ہونگے لیکن فرض حج کی ادائیگی والے درجات کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پیارے نبی ۖ نے صرف ایک فرض حج ادا فرمایا اور خطبہ حجةالوداع سے اُمتِ مسلمہ کو نواز دیا۔اس عظیم الشان خطبے میں بھی احکامات کے ساتھ ساتھ دعائوں اور مناجات کا ذکر موجود ہے۔مکہ مکرمہ پہنچ کر ہم نے پانچ ذوالحجہ کو فجر سے ذرا پہلے عمرہ ادا کیا۔ طوافِ قدوم یا افتتاحی طواف اس عمرے کا انتہائی خوشگوار حصہ ہے۔ اللہ کے پاک گھر پر پہلی نظر پڑتے ہی عجیب و غریب ترتیب سے بہت سی دعائیں دل کی اتہا گہرائیوں سے نکلیں۔ بے شمار لوگوں نے ان گنت دعائیں ہمارے ذمہ لگائی تھیں۔ ان سب کی خواہشات کے احترام میں بھی اپنے ربِ سے خوب مانگا۔ عمرہ کے بعد چونکہ اگلا مرحلہ آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ کی طرف روانگی کا ہو گا تو ہمیں دو دن ایسے مل گئے جن میں آرام کے ساتھ ساتھ کچھ ملاقاتیں بھی ہو سکتی تھیں۔ حج کے سفر سے دو چار ہفتے پہلے ہی محترم مطیع اللہ ہاشمی اور محترم عبیداللہ ابڑو صاحبان سے ملاقات کا وقت طے ہو گیا تھا۔ مطیع اللہ بھائی جوش و جذبے میں سرشار ایک دن پہلے ہی ہمارے ہوٹل پہنچ گئے۔ ان سے مل کر خوشی تو ہونی ہی تھی لیکن فائدہ بھی ہو گیا کیونکہ وہ ہمیں اپنی نگرانی میں حرم شریف پہنچ آئے تاکہ ہم عمرہ کر سکیں۔ دوسرے دن وعدے کے عین مطابق ہاشمی صاحب کے ساتھ ابڑو صاحب کی رہائش گاہ پہنچے تو انہیں سراپا انتظار پایا۔ ان کے ہاں ایک طویل نشست میں سعودی عرب اور مشروقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے حالات کا پتہ چلا۔ وہ ستر کی دہائی سے مکہ میں مقیم ہیں اور یہاں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہماری ہاشمی صاحب اور ابڑو صاحب کے ساتھ تعلق کی نسبت شاہ ولی اللہ کالج منصورہ سندھ میں تعلیم حاصل کرنے سے ہے۔پرانی یادیں تازہ کیں اور برادرِ محترم حکیم الیاس صاحب کے اس احسان کا ذکر بھی ہوتا رہا کہ انہوں نے منصورہ قدیم میں پڑھنے والوں کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا کر بچھڑے ساتھیوں کو آپس میں ملا دیا۔فرصت کے ان دو دنوں میں آرام بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ دنیا بھر سے کئی مزید ساتھیوں نے خصوصی دعائوں کے احکامات جاری کئے ہیں۔ منیٰ اور خاص طور پر عرفہ کے دن کیلئے دعائوں کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے۔ اللہ کرے کہ میں کسی ساتھی کی دعا بھول نہ جائوں۔
عمرے کے طواف کے دوران احساس ہوا تھا کہ یہ عبادت دراصل دعائوں کے ایک مجموعے کا نام ہی تو ہے۔ طواف کے دوران، ہر چکر میں، ایک خاص موقع ایسا آتا ہے جب تقریبا سب لوگ ربنا آتِنا فِی الدنیا حسن وفِی الآخِرِ حسن وقِنا عذاب النارِ دہراتے ہیں۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی نے میری بیٹی کا نام حسنہ تجویز کیا تھا اور ساتھ ہی مجھے فرمایا تھا کہ یہ تمہاری دینا کی حسنہ ہے۔ اگر اس کی اچھی تربیت کرلو گے تو تمہاری آخرت کی حسنہ کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ آج حسنہ ہمارے ساتھ اس حج کی رہبر ہے اور ہمارا سفر بہت آسان بنا دیا ہے اور اپنے نام کے دعا کی گونج حرم میں سن کر بہت خوش بھی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے دین و دنیا کی فلاح عطا فرمائے۔
ہم دونوں میاں بیوی، جنوری میں اپنی شادی کے فورا بعد عمرے کیلئے سعودی عرب آئے تھے۔ ان دنوں میرے محترم چچا اعجاز حسین صاحب نے جدہ میں ہمارا استقبال کیا تھا اور ہم دونوں خاندان عمرے کیلئے اکٹھے مکہ پہنچے تھے۔ اس وقت ان کا بیٹا مجاہد آٹھ ماہ کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ چچا جان اور میں باری باری اسے کندھوں پر اٹھا کر طواف اور سعی کرتے رہے۔ اتفاق دیکھئے کہ ہمارے ہاں میں حسنہ بیٹی کی پیدائش ہوئی اور پھر چار پانچ سال پہلے مجاہد اور حسنہ کی شادی ہوگئی۔ آج اس سفرِ حج میں وہی مجاہد جسے کندھے پر اٹھا کر ہم نے عمرہ کیا تھا، وہ ہمارا زبردست سہارا بنا ہوا ہے۔ پریم رنگ پوری صاحب کا کیا شاندار مصرع ہے:
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اس وقت لاکھوں حجاج کرام یہاں پہنچ کر اپنے رب سے اس کی رضا مانگ رہے ہیں۔ دینے والا بھی بڑا بے نیاز ہے۔ اس سے ہی ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ زندگی کے یہ چند دن ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ سب اس کی رضا کے متمنی ہیں۔ وہ راضی ہوگیا تو بیڑہ پار۔ ان شااللہ
اللہ تعالیٰ نے اس حج میں میرے لئے بچوں اور اہلیہ کی معاونت تو فراہم کی ہی ہے، حج گروپ کی انتظامیہ بھی بہت زبردست طریقے سے ہماری خدمت کر رہی ہے۔ میرے پیارے دوست، ساتھی اور بھائی عمران صدیقی نے تو حد ہی کردی ہے۔ قدم قدم پر سہارا بن کر بہترین رہنمائی کرنے کا طریقہ تو صرف ان ہی کو آتا ہے۔ دانیال، مجاہد اور بلال سائے کی طرح میرے ساتھ ہیں اور خدمت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ حسنہ اور زینب اپنی امی کا خیال رکھتے رکھتے میری خبر بھی لیتی رہتی ہیں۔ہمارے سفر کے ابھی خاصے مشکل مراحل باقی ہیں، اس لیے آپ سے مزید دعائوں کی درخواست ہے کہ ہمیں دعا کرنے کا ڈھنگ بھی آجائے کیونکہ حفیظ جالندھری صاحب کے اس شعر کے مطابق دعائیں انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ کرنا ضروری ہیں۔
اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں وہ دعائیں وہ مناجاتیں گئیں
٭٭٭