کراچی اسٹیڈیم کی آسائش و زیبائش کا کام کچھ ایسا مشکل نہ تھا جیسے کہ کوئی تاج محل بنایا جارہا ہو، یہ اور بات ہے کہ کنٹریکٹرز نے حکام کو ایسا باور کرایا تھا کہ سٹیڈیم کے کچھ حصے کی تعمیر نو اتنا ہی مشکل ہے جتنی کہ تاج محل کی تعمیر سنا ہے کہ ماہرین تعمیر سوئیٹزر لینڈ، جاپان اور چین سے آئے تھے، ایم کیو ایم کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مقبول صدیقی کے رشتہ داروں نے بھارت سے ٹینڈر زبھرا تھا لیکن کامیابی نہ ہوسکی یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اسٹیڈیم کی تعمیر نو کے خلاف جھوٹا اور من گھڑت پروپگنڈا شروع کر دیا تھا، سٹیڈیم کے جس حصے پر تعمیری کام کئے گئے تھے اُن میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کیلئے جدید معیارکے ڈریسنگ روم کی تعمیر تاکہ اپنے کھلاڑی صفر یا سنگل ہندسہ میں آؤٹ ہو جائیں تو ٹھنڈے پانی سے شاور لے کر اپنے غم کو غلط کر سکیں. سوئیٹزر لینڈ کے ماہرین نے تو یہ مشورہ دیا تھا کہ ڈریسنگ روم کے اندر ایک سوئمنگ پول بھی بنادیا جائے تاکہ کھلاڑی مچھلی پکڑ سکیں. بہرکیف تعمیر نو کے دوسرے کام میں ہاسپٹلٹی باکسز کی تعمیر تھی جسے بالکل مغربی انداز میں تعمیر کیا گیا تھا. نشریاتی معیار کو بہتر بنانے کیلئے تین سو پچاس ہائی وولٹیج کی لائیٹس نصب کی گئیں ہیں. دو ڈیجیٹل ری پلے سکرینز اور پانچ ہزار نئی کرسیوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے. لیکن تعمیر نو کے کام میں دو فریقین کے مابین پھڈا اُس وقت شروع ہوا جب پی سی بی اور آئی سی سی کے اہلکارز نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف اخباری بیان بازی شروع کردی. پی سی بی کے حکام نے یہ عندیہ دیا ہے کہ آئی سی سی کے بعض افسر بھاری رقم کا مطالبہ کر رہے تھے. اُنہوں نے الزام لگایا کہ الیکٹرانک اسکرین جو پی سی بی نے یونیورسٹی روڈ اور انتخاب عالم انکلوزر کے درمیان نصب کیا تھا وہ تماشہ بین کے نظارے میں روڑا اٹکارہا تھا جس سے دوہزار کے قریب تماشہ بینوں کے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا. یہ اور بات ہے کہ کراچی کے شہری میچ دیکھنے کم ہی جاتے ہیں. پی سی بی اُس دیو نما اسکرین کو وہاں سے اٹھانے کا کام قدم بہ قدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ آئی سی سی کا مؤقف ہے کہ اُس اسکرین کو فورا”اور یک مشت ہٹادیا جائے۔ اگر اسٹیڈیم کے تعمیر نو سے تماشائی میچ دیکھنے کے لئے تشریف لانا شروع کردیں تو یہ ایک معجزہ سے کم نہ ہوگاورنہ پاکستان ٹیم کے ہر کھلاڑی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ سبزی منڈی، سپر مارکیٹ ، بس اسٹاپ پر جاکر لوگوں سے درخواست کریں کہ وہ چیمپئن ٹرافی کے میچز کو دیکھنے کیلئے ضرور جائیں، لوگوں کی اِس ذرہ نوازی سے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، بس سٹاپ پر کھڑی کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے جب پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم سے یہ پوچھا کہ اگر وہ میچ دیکھنے جائیگی تووہ اُسے کیا دینگے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ محبت اور محبت نما چاکلیٹ اور اُس کے بعد وہ شرما کر بھاگ گئے۔ واضح رہے کہ بابر اعظم پر پی سی بی نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ جب تک وہ شادی نہیں کر لیتے ہیں اُس وقت تک دوبارہ کپتان ہونے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کے معاملے میں بابراعظم کا نیٹ ورک انتہائی وسیع ہے جس میں بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، انگلینڈ،
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہے ، مطلب یہ کہ جن جن ممالک کی ٹیمیں چیمپئن ٹرافی میں کھیلنے کیلئے پاکستان آرہی ہیں بابر اعظم نے اُن تمام ممالک کی لڑکیوں کے ساتھ ڈیٹنگ کر چکے ہیں،ایک ایسے وقت میں جب کرکٹ ٹیم کے پاکستانی کھلاڑیوں کو انتہائی حساس ہونا چاہئے اور مہمان ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن اِس کے بر مخالف پاکستانی کھلاڑی میچ کے دوران جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں سے دھینگا مشتی پر اُترتے نظر آئے ہیں، یہ منظر اُس وقت دیکھنے میں آیا جب جنوبی افریقہ کی اننگز کے 28 اوور میں مہمان ٹیم کے بیٹر بریٹزکی ایک رن لینے کی کوشش میں شاہین آفریدی سے ٹکرا گئے جس پرپاکستان کے فاسٹ بولر اپنے غصے کو قابو میں نہ رکھ سکے اور اُنہوں نے بیٹر بریٹیزکو کچھ کہا اور دونوں میں کرکٹ میچ کے بجائے تو تو میں میں کی کہانی شروع ہوگئی، اُسکے چند لمحہ ہی بعد اگلے اوور میں ایک اور واقعہ سعود شکیل اور جنوبی افریقہ کی ٹیم کے کپتان باووما کو کے مابین ہوگیا، سعود شکیل نے کپتان باووما کو کو آؤٹ کرنے کے بعد اُس کے سامنے جاکر شور مچانا شروع کردیا اور اُس کا راستہ روک لیا. آئی سی سی کے مطابق تینوں کھلاڑیوں پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور یہ وارننگ دی گئی ہے کہ آئندہ ایسی حرکات کا مظاہرہ کرنے پر اُنہیں کھیل سے ہمیشہ کیلئے برطرف کردیا جائیگا،سہ فریقی سیریز اپنے اختتام کو پہنچ گیا، جنہوں نے اِس کے فائینل میچ مابین پاکستان اور نیوزی لینڈ کو دیکھاشاید وہ دوبارہ پاکستان کے کھیل کو دیکھنے میں شرمائینگے، پاکستانی کھلاڑی جس طرح لاغر ، کمزوراور کاہل نظر آرہے تھے شاید اِس سے بدتر ین کھیل کا مظاہرہ اُنہوں نے کبھی نہیں کیا ہوگا، پھس پھسی بولنگ ، ناکاری فیلڈنگ میچ کے شروع سے آخر تک قائم و دائم رہی، ہر کھلاڑی دوسرے سے یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ بال پکڑے گا، اُس کا کام صرف اپنی شکل ٹی وی پر دکھانا ہے اور بھاری معاوضہ وصول کرنا ہے،تیجا”پاکستان کی ٹیم لاہور میں نیوزی لینڈسے شکست کے بعد فائینل میں بھی اُس سے شکست کھاگئی، اب اِسی نیوزی لینڈ سے پاکستان کا مقابلہ چیمپئنز ٹرافی میں 19 فروری کو کراچی میں منعقد ہوگا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی توقع لے کر اہلیان کراچی اُس میچ کو دیکھنے جائینگے،مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ٹکٹیں ڈالر میں فروخت ہورہی ہیں جن کی قیمتیں 12سے 92 ڈالر تک ہیں۔