اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ میں آزما سکوں کہ اچھے اعمال کس کے پاس ہیں پھر فرمایا کہ تم سے پہلے جتنے بھی لوگ آئے انبیاء کرام سمیت سب کو آزمایا،یہ نہیں کہ تم کلمہ پڑھ کر مسلم مومن ہوگئے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا اور جو لوگ برُے اعمال کرتے ہیں کیا وہ میری گرفت سے بچ جائیں گے۔اگر وہ یہ سوچتے ہیں تو اپنے حق میں بڑا برا فیصلہ کیا ہے۔اللہ رب العزت نے ہمیں پیدا کرنے سے پہلے اپنی دو صفتیں سمیع وبصیر کی عطا فرمائیں۔اور پھر دونوں راستوں کی ہدایت عطا فرمائی کہ اچھا راستہ کون سا ہے اور برا راستہ کون سا ہے۔اور راستے چننے کا اختیار بھی عطا فرمایا۔اب ہماری مرضی ہے کہ ہم اپنے لئے سیدھا راستہ چنیں یا غلط راستہ۔ایک دن حساب تو دینا ہے ”وہ آخرت کا دن ہوگا مگر یہاں دنیا میں ہمارا امتحان لیا جائے گاچونکہ ہر شے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی گئی ہے قدر کی رات ہمیں عطا کی گئی نشاندہی بھی کر دی گئی رمضان کے آخری عشرے میں طاق راتوں میں تلاش کریں فائدہ کیا ہوگا۔اگر ہم نے تلاش کرلی۔تو ہمیں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب عطا کیا جائے۔اور تلاش کرنے کا اختیار ہمارے پاس ہے اگر ہم قدر کی رات کی قدر کرلیں۔تو یقین جانیں اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔کہاں صرف ایک رات اور کہاں چوراسی سال اور کچھ ماہ کی عبادت مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بخشش کے لئے خود ہی راہ ہموار کر دیتا ہے۔اگر پھر بھی ہم اس نعمت سے محروم رہیں تو سیدھا سادھا مطلب ہے کہ ہم نے واقعی قدر والی رات کی قدر نہیں کی۔سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے انبیاء کرام کی وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔مگر قدر کی رات اللہ اپنے بندوں سے اپنی عطا کے ساتھ جبریل امین کو فرشتے کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ہر اس بندے پر اللہ کی رحمت بھتیجے ہیں۔جو اس کی بارگاہ میں کھڑا ہے اور بخشش کی دعا کرتے ہیں حتیٰ فجر ہوجاتی ہے۔جبریل اپنے فرشتوں کے ساتھ واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں اور جو رجسٹر مرتب کرتے ہیں وہ بارگاہ ایزدی میں پیش کردیتے ہیں۔کتنے خوش نیب ہیں وہ لوگ جن کو قدر کی رات قدر کرنے کا ڈھنگ آگیا۔وہ دنیاوآخرت میں سرخرو ہوگئے مگر جس نے توبہ کی وہ مارا گیا جس نے توبہ کرکے اپنا دامن بچا لیا وہ کامیاب ہوگیا۔اللہ ہم سب کو کامیاب کرے(آمین)۔
٭٭٭