دنیا بھر کے سیاست اور پاکستان کی سیاست میں کم از کم ایک فرق تو واضح ہے، مہذب دنیا میں سیاست نظام حکومت کے ذریعے عوام کے حقوق کے تحفظ کا ایسا نظام ہے جس سے کوئی چاہ کر بھی انکار نہیں کر سکتا مگر پاکستان میں نظام سیاست ایک ایسا گندہ کاروبار بن چکا ہے، جس میں کوئی چاہ کر بھی عوامی توقعات کو پورا نہیں کر سکتا۔ماضی کی اپوزیشن جماعتوں کا الائنس پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کو گرانے میں تو کامیاب ہو گیا مگر ان کے سامنے جو مسائل اس وقت سر اٹھا رہے ہیں، ان کو اگر نا گرا سکے تو مستقبل میں بخوشی نظام سیاست کو کسی مارشل لا کے حوالے کردیں، اسی میں ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی لوگوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے سے بچنے کا ایک موقع مل سکتا ہے۔جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، اس بات کا تعین کرنا قدرے مشکل نہیں کہ پاکستانی عوام ایک بار پھر سیاسی وابستگیوں کی لالی پاپ منہ میں دبا کر مہنگائی کے آنے والے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں، حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں، کہ شاید مستقبل میں کسی سیاسی جماعت کے وعدوں پر یقین کرنے کو کوئی تیار نہ ہو۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن کی زبان اور حکومت میں آنے کے بعد بدل جاتی ہے جس کا ایک عملی طور پر نمونہ صرف تیل کی قیمتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
یعنی وہی اپوزیشن جو ماضی میں حکومت کو تیل کی قیمتیں بڑھانے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے، آج مسکینوں کی طرح منہ بنا بنا کر کہہ رہے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے اگر یہ نیک کام تم نے بھی آکر کرنا تھا تو پھر پاکستان کے نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
پھر پاکستان کے سیاستدان اس بات کو تسلیم کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت عوام کی فلاح و بہبود کا نام نہیں بلکہ عوام کی بوٹیاں نوچ لینے کا نام ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے جب وہ اپنے اس جمہوری نظام کا مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک کے جمہوری نظام سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پانچ سال میں حکومت کو کام کرنے کی بجائے ڈرامے بازیاں کرنے والے سیاست دانوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ پاکستان میں سیاست منافقت کا دوسرا نام بن چکا ہے۔اب تو عام آدمی صرف یہی سوچتا ہے کہ اگر جمہوری اور سیاسی نظام ہیں ان کی مشکلوں کو ٹال سکتا ہے تو میں اتنا ہی کہوں گا، واہ رے سیاست تو کب باشعور ہو گئی۔
٭٭٭