فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! امام الآئمہ، سراج الُامّہ، سیّدالفُضھائ، سندالافقیائ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ میں اللہ عزَّوجلَّ نے علم وعمل کی تمام خوبیاں جمع کردی تھیں۔ وہ میدان علم میں تحقیق وتدقیق کے شاہسوار، اخلاق وعادات میں لائق تقلید اور عبادت و ریاضت میں بگانہ روزگار تھے۔ مسائل فقہیہ میں ان کی سطوت اور اجیہاد میں ان کا سکہ تو ہر ایک نے مانا ہے البتہ بعض اہل ہوا کو تاوبین اور متعصّب حضرات فنّ حدیث میں آپ کی بصیرت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور کچھ بے لگام لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ کو صرف سترہ حدیثیں آتی تھیں۔ اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ علم حدیث کے فن میں روایت و درایت میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کا رتبہ اور مقام بیان کیا جاتا ہے تاکہ مخلص ناواقف لوگ متعصّبین کے جھوٹے پروپیگندہ سے محفوظ رہ سکیں۔ حق تو یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اسلامی علوم وفنون کے تمام شعبوں میں امام اور مجہید تھے اس لئے اس بات کو کوئی نہیں مان سکتا کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے پندرہ سال کی عمر تک حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ کی ہو اور ان سے روایت کا شرف نہ حاصل کیا ہو محقّقین علماء کرام اور محدّثین عظام علیھم الرّضوان نے امام اعظم رضی اللہ عنہ کی مرویات صحابہ کو پوری اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور دلائل سے انہیں تقویت دی ہے۔ بہرحال جس طرح آپ آسمان فقہ کے درخشندہ آفتاب تھے اسی طرح عقائد وکلام کے اُفق پر بھی انہیں کا سورج طلوع ہوتا تھا اور روایت ودرایت کے میدان میں سابقیت کا علم بھی انہی کا نصب کردہ ہے۔ فقہ میں یہ آب و رنگ انہی کے دُم سے ہے اور فنّ حدیث میں بھی یہ بہار انہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ شافعی اور مالکی فقہ میں ان کے پروردہ ہیں۔ اور صحاح ستہ کے شیوخ ان کے فیض یافتہ ہیں۔ آپ ہی کی وجہ سے فقھا، کو عروج اور بحاری ومسلم کو جو بن نصیب ہوا۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے اگرچہ بنیادی طور پر علم فقہ کی خدمت کی ہے اور اپنی ع مر کا تمام حصہ اسی میں صرف کیا ہے تاہم علم حدیث میں بھی ان کا بہت اونچا مقام ہے۔ انہوں نے افاضل صحابہ اور اکابرتابعین رضی اللہ عنھم سے حدیث مبارکہ کا سماع کیا پھر ان روایات کو کامل حزم واحتیاط کے ساتھ اپنے تلامذہ تک پہنچایا۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ چونکہ علم حدیث میں مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے اس لئے محض نقل روایت پر ہی اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں روایات کی جانچ پڑتال کرتے تھے۔ راویوں کے احوال اور ان کی صفات پر بھی زبردست تنقیدی نظر رکھتے تھے اور کسی حدیث پر اعتماد کرنے سے پہلے اس کی سند اور متن کو پوری طرح پرکھ لیتے تھے۔ جو لوگ سوچے سمجھے بغیر یہ کہہ دیتے ہیں کہ امام اعظم کو علم حدیث میں کوئی دسترس نہیں تھی وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے عبادات ومعاملات، معاشیات و عمرانیات اور قضایا وعقوبات کے اُن گنت احکام بیان کئے ہیں۔ حیات انسانی کا کوئی گوشہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ احکامات سے خالی نہیں ہے لیکن آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ آپ کا بیان کردہ فلاں حکم حدیث مبارکہ کے خلاف تھا۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی مہارت حدیث پر اس سے بڑھ کر اور کہا سند ہوسکتی ہے کہ ان کا بیان کردہ ہر مسئلہ حدیث نبوی کے موافق اور ہر حکم سنت رسولۖ کے مطابق ہے؟ بسا اوقات ایک ہی مسئلہ میں متعدد اور متعارض روایات ہوتی ہیں۔ مثلاً نماز پڑھتے پڑھتے کوئی شخص رکعات کی تعداد بھول جائے تو بعض روایات میں یہ ہے۔ کہ وہ ازسر نو نماز پڑھے، بعض روایات میں یہ ہے کہ وہ رکعات کو کم سے کم تعداد پر محمول کرے اور بعض میں ہے کہ وہ غوروفکر کرکے راحج جانب پر عمل کرے اسی طرح سفر میں روزہ کے بارے میں بھی مختلف احادیث ہیں۔ بعض میں اثناء سفر میں روزہ کو نیکی کے منافی قرار دیا گیا اور بعض میں عین ثواب ایسی صورت میں امام اعظم رضی اللہ عنہ نے منشاء رسالت تلاش کرکے ان روایات میں باہم تطبیق دے دی اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو سند کی قوت وضعف اور دوسرے اصول و روایت کے اعتبار سے فیصلہ کردیا اور ظاہر ہے یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو منشاء وحی اور مزاج رسالت کو پہچانتا ہو، روایات کے تمام طرق پر حاوی روایت کے کل اصولوں پر محیط اور راویوں کے احوال پر ناقدانہ نظر رکھتا ہو۔ حدیث پاک کے ایک راوی ہونے کی حیثیت سے رجال حدیث میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے معاضرین میں سے امام مارک، امام اوزاعی اور سفیان ثوری رضی اللہ عنھم ہیں۔ انہوں نے خدمت حدیث میں بڑا نام کمایا ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی تابعیت کا وہ عظیم شرف حاصل نہیں ہے جو امام اعظم رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے۔ تابعی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے رسول اللہۖ کے کسی صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھا ہو یا صحبت پائی ہو۔ تادم آخر ایمان پر قائم رہا تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی صحبت پائی کیونکہ آپ کی ولادت80سن میں ہوئی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ اس کے بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے۔ نیز علامہ ابن حجر ہیتمی نے ثابت کیا ہے کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوخٰی کو بھی دیکھا ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کا انتقال امام اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد87سن میں ہوا۔ اور ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ اور بھی کئی صحابہ علیھم الرّضوان کا انتقال آپ کی ولادت کے بعد ہوا ہے۔ بہرحال اللہ پاک نے آپ کو فقہ وحدیث اور بہت سے علوم میں بڑا مقام عطا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے فیضان سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭