جاگو مسلمانوں!ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں”

0
425
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پاکستان آزاد ہوا 1947ء میں یہ ایک نظریاتی ملک تھا، 14 مئی 1948ء کو چند یہودیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم ہولوکاسٹ جو ہٹلر نے کیا تھا چھ لاکھ یہودی مارے تھے وہ یورپ کی جگہ سے اگر یہودیوں کو بدلہ لینا تھا تو وہ یورپ سے لیتے انہوں نے 14 مئی کو یہ فیصلہ کیا کہ ہم فلسطین کے اندر جائینگے اور اپنی ریاست کا اعلان کرینگے۔ اس وقت یونائیٹڈ نیشن کا اجلاس ہو رہا تھا اس کے درمیان روس اور امریکہ نے اس بات کو دُرست قرار دیا کہ یہ جو بات کہہ رہے ہیں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں پر ہمارے رسولۖ نے نہیں بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے اپنا ماتھا اور ناک زمین پر رگڑی ہے۔ آج ہمارے پاس رسولۖ کا ایک بال آجاتا ہے تو ہم ساری دنیا میں اس کی تشہیر کرتے ہیں اور اگر اس بال پر کوئی گندی نظر ڈال دے تو ہم اسے ناموس رسول قرار دے دیتے ہیں یہ وہ جگہ ہے جسے بیت المقدس کہتے ہیں جہاں پر ہمارے نبیۖ نے اپنے سواری کو اس پتھر کیساتھ باندھا تھا وہ اب بھی موجود ہے 1948ء میں یہودیوں نے ہمیں یاد دلانے کیلئے عرب کی عورتوں کو اکٹھا کیا اور جتنی عورتیں وہاں موجود تھیں سب کو برہنہ کیا اور کہا کہ اب تم اسی جگہ کا طواف کرو جہاں تمہارے محمدۖ نے سجدہ کیا تھا۔ اور ان عورتوں نے برہنہ حالت میں وہاں کا طواف کیا لیکن اس طوفان کے بعد جہاں ہمارے آقا کا سر لگا تھا اس ساری مملکت اسلامیہ میں ایک بھی غیر تمند مرد نہیں تھا جو اُٹھ کر کہتا کہ تم جو ہماری عورتوں کیساتھ جو کچھ کیا ہے میں اس کا بدلہ تم سے لوں گا جس طرح آج بیت المقدس میں یہ سب کچھ ہو رہاہے تو آنے والے وقت میں ہمارے موجودہ کعبہ پر بھی نعوذ باللہ یہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ 1948ء سے 2014 تک صرف ایک ہی مسلمان امام خمینی نے بیان دیا تھا کہ یہ مسلمانوں کے سینے پر ایک چُھرے کی طرح ہے اسرائیل کی آج بھی یہی حالت ہے پوری اُمت مسلمہ ایک بیان نہیں جاری کر سکی کیونکہ ان کا دیا کھا رہی ہے ہم مسلکوں میں بٹ گئے ہیں ہم نے اپنے آپ کو خود ننگا کر کے ان کے جھکا دیا ہے اور آج ہم یہ کہتے ہوئے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور فلسطینی بھی مسلمان ہیں جو اس وقت پتھر مارتا ہے اسے گولی لگتی ہے کیا یہی ہمارا مسلمان ہے۔ ہم نے بچپن سے لے کر آج تک شاید ایسا کوئی جمعہ پڑھا جہاں پر فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی بربادی کی دعا نہ کی گئی ہو اگر ہماری دعائوں میں ذرا بھی اثر ہوتا تو اسرائیل اب تک نیست و نابود ہو گیا ہوتا لیکن ہماری دعائیں اور ہیں اور ہماری ادائیں اور ہیں ہماری عظیم اُمت مسلمہ ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابناک کاشغر کانپتی ٹانگوں کیساتھ دعائیں مانگ رہی ہے اور دل میں یہ بھی سوچ رہی ہے کہ یہ فلسطینی ہمیں بھی مروا دیں گے جہاں ہماری یہ حالت ہو وہاں کیا ہوگا اسرائیل جس طرح فلسطین کو تباہ کر رہا ہے ارو اب پھر 20 سال پیچھے کر دیا ہے تاکہ یہ قوم اسی طرح تباہ و برباد رہے ہمارے ہیوسٹن میں جو ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی جس میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی اس کے باوجود ہماری تعداد اتنی نہیں تھی اور ہمارے وہ کانگریس مین اور دوسرے عہدیدارا جن کو ہم اپنی مساجدوں اور اپنے گھروں پر بُلا بُلا کر فنڈریزنگ کرتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی منبر کا تقدس بھی پامال کر دیا ہے جہاں ناپاک نہیں آسکتا ہم نے ان کو اپنی مساجد میں بلا کر منبر بھی دے دیا۔ کیا کسی نے مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی ادا کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ اسرائیل کیخلاف بیان دو کم از کم انسانیت کے ناطے ہی کہہ دو کہ یہ ظلم ہے نا انصافی ہے ہم اپنی پارٹیوں میں لگے ہوئے ہیں میں استدعا کرتا ہوں اپنے ان لیڈران سے جو ڈیمو کریٹک ہوں یا ری پبلکن خدارا اپنے امریکن نمائندوں سے کہیں کہ اس ظلم کیخلاف بیان دیں آواز اٹھائیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہم ایسا نہیں کرینگے اور تھوڑے عرصے کے بعد پھر وہی کانگریس مین اور عہدیدار ہماری محفلوں کی زینت ہونگے فوٹو سیشن ہو رہے ہونگے اس وقت عمل کی ضرورت ہے احتجاج اور نعروں کی نہیں ہم نے ہمیشہ ہی سنا ہے کہ اگر تمام مسلمان ممالک یکجا ہو کر پیشاب ہی کر دیں تو اسرائیل بہہ جائیگا لیکن وہ ہمت ہم میں کہاں ہے اگر اب بھی اُمت مسلمہ کو ہوش نہ آیا تو نہ ہی فلسطین اور نہ ہی کشمیر کسی کو بھی آزادی میسر نہیں آئے گی۔ نہتے مسلمانوں پر جس طرح بمباری کی جا رہی ہے اور اسرائیلی فوجیں جس طرح قتل عام کر رہی ہیں ان کو دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ وہ کس طرح اس عذاب کو سہہ رہے ہیں ہماری اسلامک یونین بھی صرف اجلاس تک ہی محدود ہیں کوئی ایکشن نہیں لے رہی کیونکہ ان کے بڑے بڑے مفاد وابستہ ہیں اگر آج تمام اسلامی ممالک یہ طے کر لیں کہ اسرائیل کیساتھ جو بھی ہوگا اس سے تعلقات ختم کر لینگے لیکن ہمارے اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں بس نام کے مسلمان ہیں لگتا یہی ہے کہ اب امام مہدی ہی آکر اس کو آزاد کروائیں گے، ورنہ ہمارے مسلمانوں میں تو اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم اُٹھائیں ،اللہ تعالیٰ ہی کوئی معجزہ دکھا دے، اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس تباہی سے مسلمانوں کو نجات دلائے، اس وقت تمام اُمت مسلمہ کی نظریں ، ایک ہی لیڈر پر لگی ہوئی ہیںاور وہ ہے اُردگان جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی ہمت اور طاقت دی ہے کہ وہ ہی صرف مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کر سکتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ جو نیویارک گئے ہیں ان کو چاہیے تھا کہ یو اے ای، قطر، سعودی عرب جاتے اور ان پر پریشر ڈالتے کہ آپ نے اپنے تعلقات ختم کرنے ہیں تو اسرائیل کو سوچنا پڑ جاتا، لیکن ہم مسلمان اپنی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ خدارا ہوش کے ناخن لے لو ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here