پاکستان کی ایک پیچیدہ اور ہنگامہ خیز تاریخ ہے، جس میں جمہوری حکمرانی اور فوجی آمریت کے ادوار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے، ملک نے چار فوجی بغاوتوں کا تجربہ کیا ہے، جن میں سے ہر ایک آمر نے ملک کے سیاسی، سماجی، اور اقتصادی منظر نامے پر اپنا نشان چھوڑا ہے۔ 1958 میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے پہلے آمر جنرل ایوب خان تھے۔ خان، جنہیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا، نے 11 سال تک پاکستان پر حکومت کی، ملک کو جدید بنانے کے مقصد سے متعدد اصلاحات نافذ کیں۔ ان کے دور حکومت میں نمایاں اقتصادی ترقی، صنعت کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی دیکھی گئی تاہم، اس کی حکمرانی کو سیاسی جبر، سنسرشپ، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے بھی نشان زد کیا۔ 1969 میں ایوب کے جانشین جنرل یحیی خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اور دو سال حکومت کی۔ ان کے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، اور 1971 میں مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)کی با لآخر علیحدگی کا نشان تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بدنام ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق ہے، جس نے 1977 سے 1988 تک حکومت کی۔ ضیا کے دور حکومت میں سیاسی مخالفت، اسلامی قانون (شریعت)کے نفاذ اور اقلیتوں کے حقوق کو دبانے کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا گیا۔ ان کی حکومت نے سوویت افغان جنگ بھی دیکھی، جس کے دوران پاکستان عالمی سرد جنگ میں کلیدی کھلاڑی بن گیا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک خونخوار بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نو سال تک پاکستان پر حکومت کی۔ ان کی حکومت آمریت اور لبرل اصلاحات کے مرکب سے نشان زد تھی، جس میں ایک نیا آئین متعارف کرانا اور خواتین کو بااختیار بنانا شامل تھا تاہم، ان کی حکمرانی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سیاسی جبر اور بدعنوانی کے لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں آمریت کی میراث پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے۔ ایک طرف، کچھ آمروں نے ملک کو جدید بناتے ہوئے اہم اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو نافذ کیا۔ دوسری طرف، ان کی حکومتیں سیاسی جبر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور اقلیتوں کے حقوق کو دبانے کی وجہ سے نشان زد تھیں۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کی آمریت کے نتائج سے دوچار ہے۔ جمہوری استحکام اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جاری جدوجہد کے ساتھ ملک کا سیاسی منظر نامہ بدستور نازک ہے۔
٭٭٭