٭ آنحضرتۖ جب چلتے تھے تو تکبرانہ انداز میںنہ چلتے بلکہ آہستہ آہستہ اور باوقار انداز میں چلتے۔ ٭ جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے۔ ٭ آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں۔ ٭ آپ ہمیشہ غور و فکر و تدبر میں رہتے۔ ٭ آپ غم و اندوہ میں غرق رہتے۔ ٭ ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے۔ ٭ آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے۔ ٭ آپ کے عادات و اطوار میں سختی اور پست کلامی کا وجود نہ تھا۔ ٭ آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔ ٭ حق کو اُجاگر کرنے والے تھے۔ ٭ آپۖ خوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ ٭ آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم نعمت سمجھتے تھے۔ ٭ آپۖ نے کسی نعمت کی مذمت نہیں فرمائی۔ ٭ کھانے پینے کی اشیاء میں جو اچھی لگتی کھا لیتے اور جو پسند نہ کرتے بغیر اس کی مذمت کئے اس کو چھوڑ دیتے۔ ٭ دینوی امور میں گھاٹے پر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔ ٭ خدا کیلئے اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئی آپۖ کو پہچان نہ سکتا تھا۔ ٭ اگر اشارہ کرنا ہوتا تو اپنی اُنگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابرو سے۔ ٭ جب خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے۔ ٭ آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذ و نادر ہنستے وقت آپ کی آواز سنائی دیتی۔ ٭ آپۖ بار بار فرماتے کہ جو حاضر ہے وہ میرا کلام غائب کو پہنچائے۔ ٭ آپۖ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتائو جو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچا سکتے۔ ٭ کسی کا اس کی لغزش اور خطاء پر مواخذہ نہ فرماتے۔ اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم و حکمت سے دامن بھر کر واپس آتا۔ ٭ آپۖ لوگوں کے شر سے واقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے۔ ٭ آپۖ لوگوں سے خوش روئی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ ٭ آپۖ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے۔ ٭ آپۖ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔ ٭ اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اور آپۖ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا خیر خواہ ہے۔ ٭ آپۖ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کیساتھ احسان ،مدد اور نصرت سے پیش آتے۔ عالم مصلح اور اخلاق حسنہ کے مالک افراد کی تکریم فرماتے تھے۔ ٭ ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے۔ ٭ آپۖ کسی مجلس میں اُٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کیساتھ۔ ٭ مجلس میں اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ قرار نہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے۔ ٭ جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کو بھی اس کی نصیحت فرماتے۔ ٭ لوگوں میں اس طرح گُھل مل جاتے کہ ہر آدمی سمجھتا کہ وہی آپۖ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے۔ ٭ مجلس میں حاضر ہر فرد آپۖ کے اکرام اور توجہ کا مرکز ہوتا۔ ٭ جس نے بھی آپۖ سے کوئی حاجت طلب کی تو مقدور ہونے کی صورت میں اس کی حاجت روا ئی کرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کیساتھ راضی کرتے۔ ٭ آپۖ کی مجلس حیاء بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائی اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہر کرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقویٰ و پرہیز گاری کی نصیحت فرماتے۔ بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے، فقیروں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تھے۔ ٭ تمام لوگ آپۖ کی نگاہ میں مساوی اور برابر تھے۔ ٭ سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضرر کا احساس نہ ہوتا، کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے۔ ٭ کسی وقت آپۖ کی صدا بلند نہ ہوتی حتیٰ کہ غیض و غضب کے وقت بھی۔ ٭ کسی سے بدکلامی نہ فرماتے۔ لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ بہت زیادہ ان کی تعریف کرتے۔ ٭ کوئی بھی آپۖ سے نا امید نہ ہوتا۔ ٭ آپۖ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے۔ ٭ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔ ٭ کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو۔ ٭ فائدہ سے خالی اشیاء کے درپے نہ رہتے۔ ٭ کسی کی مذمت نہ کرتے۔ کسی کی سرزنش نہ کرتے۔ ٭ لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اور نہ اس کی جستجو کرتے۔ ٭ بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے۔ ٭ جب آپۖ دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی درہم و دینار، غلام، کنیز، بھیڑ بکری اور اونٹ چھوڑ کر نہیں گئے۔ جب آپۖ دار فانی سے چلے گئے تو معلوم ہوا کہ آپۖ کی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی تھی جس کے بدلے میں آپۖ نے اس سے بیس صاع جو اپنے اہل و عیال کیلئے لئے تھے۔ ٭ آنحضرتۖ تین دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوئے تھے کہ معبود حقیقی سے جا ملے۔ ٭ آپۖ خاک پر بیٹھتے، زمین پر بیٹھ کر طعام تناول فرماتے، زمین پر سوتے بھیڑ اور اونٹ کا پائوں خود باندھتے بھیڑوں کو خود دوھتے اور اپنے گھر کا دروازہ خود کھولتے تھے۔ ٭ آپ کمال تواضع کے مالک تھے۔ آپ ہر روز بدن کی رگوں کی تعداد کے مطابق تین سو ساٹھ مرتبہ ”الحمد للہ رب العالمین کثیر اعلیٰ کل حال” کہتے تھے اور ستر مرتبہ ”استغفراللہ” اور ستر مرتبہ ”اتوب الی اللہ” کا ذکر کرتے تھے۔ روایت میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ آپۖ کے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا جس میں شہد ملا ہوا تھا آپۖ نے فرمایا یہ پینے کی دو چیزیں ہیں جن میں سے ایک پر اکتفاء ہو سکتا ہے۔ میں دونوں کو نہیں پیوں گا اور دونوں کو تم پر حرام بھی نہیں کرتا ہوں میں خدا کیلئے تواضع سے کام لونگا۔ جو بھی تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے، جو اپنی روزی میں میانہ روی سے کام لے خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے، جو فضول خرچی اور اسراف کرتا ہے خدا اسے رزق سے محروم کر دیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے۔ ٭ آپ ہر ماہ کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات، ماہ کے پہلے دس دنوں میں پہلے بدھ کو روزہ رکھتے تھے شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔
(جاری ہے)
٭٭٭