ضمیروں کے سوداگر !!!

0
66

دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ہیں، زندہ ضمیر لوگ اور مردہ ضمیر لوگ ،زندہ ضمیر کی پیشانی پر مہر مصائب ثبت ہوتی ہے جبکہ مردہ ضمیر لوگوں کی کوئی پیشانی ہی نہیں ہوتی یہ لوگ ہر لمحہ چہرے پر نئے چہرے کا نقاب اوڑھ کر آتے ہیں اور بقول شاعر !
نگاہیں میری بدلی ہیں کہ صورت ان کی بدلی ہے
جو پہچانی ہوئی صورت بھی صورت پہچانی نہیں جاتی
26اگست2014ء کو ڈان ٹی وی پر ایک مذاکرہ ہو رہا تھا، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنا دینے کے حق میں بڑے مثبت اور وزنی دلائل دے رہے تھے جبکہ ان کے جواب عظمیٰ بخاری دے رہی تھیں اور نوازشریف کی تعریفیں کرکے ان کا دفاع کر رہی تھیں۔ چونکہ وہ قبل ازیں پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں اور نوازشریف کے بارے میں تنقیدی بیانات دیتی رہی ہیں اور اب مصلحت اور مفاد پرستی کی سیاست کے اس طوفان پے وفاقی میں غوطہ زن ہو کرنوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ ان کے ٹکٹ پر موجودہ صوبائی اسمبلی کی رکن بن چکی ہیں اس لیے ان کے منہ سے نوازشریف کا دفاع نہایت ہی مضحکہ خیز یہ میری ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کی رائے ہے جو سیاست کو تجارت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ دیتا ہے۔ ان لوگوں کی زبانیں تو حاکم وقت کے ساتھ ہوتی ہیں مگر دل ذاتی مفادات کی پوٹھلی میں ہوتے ہیں جو مردان صداقت نہیں بلکہ مردان منافقت کا شیوہ ہے۔ بقول اقبال !
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ماروی میمن صاحبہ ہر ٹی وی شو میں نوازشریف حکومت کے دفاع میں نہایت ہی بے وزن اور پورے دلائل انٹیس اور ولبڈیر انداز میں دیتی ہیں چونکہ وہ ایک مہذب اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں ،لوگ ان کے انداز کو پسند کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جملہ بول کران کے خیالات کو رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو جنرل پرویز مشرف کے دست راست سابق مرکزی وزیر اطلاعات نثار میمن کی بیٹی ہے اور جنرل صاحب کے دور حکومت میں رکن قومی اسمبلی تھیں یہ کب سے نوازشریف کی خیرخواہ بن گئی ہیں تو ماروی میمن کے سب دلائل ردی کی ٹوکری میں پناہ لیتے ہیں یہی حال طارق عظیم، امیر مقام اور دانیال عزیز کا ہے۔ ہمیں ان کے ذاتی کردار سے کوئی غرض نہیں اپنے اپنے مقام پر یہ صاحب مقام ہوں گے ۔ ضمیروں کی سوداگری توقوموں کو تباہ وبرباد کردیتی ہے، جن کے نظریات نہ ہوں ان کے خیالات صرف کاغذی پھول ہوتے ہیں جن میں بوہاس نہیں ہوتی البتہ بقول حسن لظیفی
جو چاہتے ہو نشاط ہستی ضمیر کچلو ضمیر کچلو
اگر نہ تم نے ضمیر کچلا تمہارے حق میں دہال ہوگا
راولپنڈی میں ایک سیاسی باوفا اور باحیا شخص صدیق الفاروق نامی ہے۔ اس سے جنرل پرویز مشرف کے مارشلائی نظام میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ اسے زدوکوب کیا گیا اور ہر حربہ آمریت اس پر آزمایا گیا لیکن یہ شخص نہ جھکا نہ بکا۔ جنرل پرویز مشرف کی ناک کا بال امیر مقام وزیراعظم کا مشیر بن سکتا ہے تو صدیق الفاروق جیسا تعلیم یافتہ اور وفادار مشیر وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا، شاید صرف اس لیے کہ وہ نہ ہی صنعتکار ہے نہ ہی جاگیردار ہے اور نہ ہی مال دار ہے غالب نے کہا تھا !
وفا داری بشرط ہستواری اصل ایماں ہے
عرفان صدیقی صاحب ایک پروفیسر ہیں اور وہ عطاء الحق قاسمی کی طرح ہمیشہ نوازشریف کے طرف دار رہے ہیں میں حالیہ بردار نہیں کہوں گا کیونکہ وہ شرافت کے علم دار بھی ہیں انہیں وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا جو ایک نیک فال اور علم وادب کی قدر روانی ہے لیکن ان کے ناقدین انہیں شابلشاء اکبر کے نورمیں شمار کرتے ہیں بہرحال اپنی اپنی رائے ہے ہمیں عرفان صدیقی کے طرز تحریر کی تعریف کرنی چاہئے اور یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ اخبارات میں جس طرح نوازشریف کا جادبے جا دفاع کرتے ہیں تنہائی میں انہیں آئینہ صداقت بھی دکھاتے ہوںگے موجودہ جمہوریت سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے یہ حقیقی جمہوریت نہیں اس کا خاتمہ ضروری ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here