پاکستان میں پاک امریکن وکلاء برائے حقوق کے وفد کی نمائندگی کا موقع ملا ہے کہ جس میں ایک ہی سوال سامنے آیا کہ اب اور کل کیا ہوگا۔ یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا۔ ملکی سلامتی کو خطرات کیوں لاحق ہوچکے ہیں یہ وہ سوالات ہیں جس کا جواب فوری طور پر ناممکن ہے جس کے موجودہ حالات کی بربادی کے لاتعداد ضمرات ہیں جو دہائیوں پر مشتمل ہے جو اب 1970 میں اٹھے تھے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کو مار پیٹ کر سمجھا کہ اب یہ سب ٹھیک ہوجائے گا بچا کھچا ہوا پاکستان میں اب جاگیردار اور جنرلوں کا قبضہ ہوگا لہذا باقی شدہ پاکستان کے عوام پیدائشی غلام ہیں جو بنا چوں چرا طاقتوروں کے احکامات کو تسلیم کرتے رہیں گے مگر ایسا نہ ہوا کے آج پاکستان بڑی طرح تقسیم ہوچکا ہے۔ ہر ادارہ تقسیم نظر آتا ہے جس کی زد میں فوج بھی آچکی ہے جس کے اپنے سابقہ فوجی افسران اپنی ہی فوج کے خلاف ہیں جس کے ساتھ وہ ملکی آئین توڑتے رہتے ہیں۔ اور حکمران بنے رہے ہیں جو آج اپنی ہی فوج کے خلاف بول رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سابقہ فوجیوں کے علاوہ سابقہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور حمائتی صحافیوں نے بھی پوری دنیا میں محاذ کھول دیئے ہیں جن میں بعض کے پاکستان کے وجود سے بھی انکار کردیا ہے جوکہ بہت ہی پریشان کن لمحات ہیں کہ جس کا ماضی میں کبھی واقعہ رونما نہ ہوا کہ حکمرانوں سے ناراض لوگوں نے ریاست پاکستان سے انکار کیا ہو جو آج ہو رہا ہے۔ جس میں کوئی نظر یہ سیاست نہ ہو۔ چونکہ یہ سب پاکستان سے انکاری وہ لوگ ہیں جو کل تک جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے پوجازی تھے جنہوں نے تمام مارشلائوں کی کھل کر حمایت کی تھی آج وہ اپنے لاڈلے پن کی انتہا کی بنا پر اپنے خالقوں اور مالکوں کو گالیاں دے رہے ہیں جو کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ جو ماضی میں بھٹو کی پھانسی پر لٹکانے پر مٹھائیاں باٹنتے تھے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر خوش تھے نوازشریف کی برطرفی اور ملک بدری جشن مناتے تھے۔ آج عین قانون اور آئین کے مطابق تبدیلی حکومت کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید کل کلاں کے انتخابات کے نتائج سے بھی انکار کیا جائے گا جو پاکستان کو مزید لے ڈھوبے گا۔ بعض حضرات سے ملاقات سے پتہ چلا جو موجودہ حالات کی سابقہ بنگال سے تشبیح دے رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ بنگال میں بے چینی بنگالی قوم کی محرومیت تھی جو موجودہ پاکستان میں نہیں ملے یہاں فوج پر پنجابیوں اور پٹھانوں کا قبضہ نہ صرف غلبہ ہے بلکہ اب اس فوج میں سندھی اور بلوچ بھی پائے جارہے ہیں اس لئے جنرلوں کا طبقہ اپنے مفادات کی خاطر ایک پلیٹ پر جمع ہیں۔ مگر عوام تقسیم ہیں جن میں سخت نفرت اور حقارت جنم لے چکی ہے۔ جو سیاست کے لئے زہر بن چکا ہے تاہم پاکستان کی موجودہ تباہی کے سب حصہ دار ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور حکمرانی میں لوٹا ہے چاہے وہ سیاستدان جنرل اور جج میں سب کی زندگی میں تمام وہ آسائیش اور آرام دہ مراعات اور سہولتیں پائی جاتی ہیں جو عام شہری کو میسر نہیں لہٰذا عوام کا دشمن وہ طبقہ ہے جو اصرار سے گیروں، جاگیرداروں، اجارہ داروں، جنرلوں اور ججوں پر مشتمل ہے۔ جن کی چھوٹی چھوٹی اپنی اپنی سلطنتیں بنی ہوئی ہیں جو عام عوام کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ وہ کسی خوفناک خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر مزید تباہ وبرباد ہوجائیں۔ بہرحال پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جس کو بچانے کے لئے بلاتفریق اور بن دلیر اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے جس کے بغیر ملک بچ نہیں سکتا ہے لہٰذا اس کی بقا کے لئے تمام اداروں اور عہدیداروں اور اہلکاروں کو ایک پلیٹ پر جمع ہو کر وعدہ کرنا پڑے گا کہ پاکستان ہے تو سیاست ہے جس کے بغیر غلامی ہی غلامی ہے ، اس لئے تمام طاقتور اداروں کے سربراہوں کو اپنی اپنی حدود میں واپس آنا ہوگا ورنہ ملک نہیں بچے گا۔
٭٭٭