نیویارک /ٹورانٹو (پاکستان نیوز) امریکہ اور کینیڈا میں قیامت خیز گرمی سے 126 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ، درجہ حرارت بڑھنے سے کینیڈا میں دبئی کی یاد تازہ ہوگئی ، 250سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ، امریکہ کی ریاست اوریگون کے سب سے بڑے شہر پورٹ لینڈ میں پیر کو درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تھا،سیاٹل میں 41 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ، پورٹ لینڈ اور سیاٹل امریکہ میں کم ترین ائیر کنڈیشنڈ رکھنے والے شہروں میں شامل ہیں ، دونوں شہروں میں عوام کو موسم کی شدت سے بچانے کے لیے ‘کولنگ سینٹرز’ قائم کر دیئے گئے ہیں ۔شدید گرمی کے پیشِ نظر حکام نے اوریگون میں اولمپکس کے لیے جاری ٹرائلز بھی ملتوی کردیے تھے۔گرمی کی شدت کی وجہ ‘ہیٹ ڈوم’ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بحرالکاہل سے آنے والی ٹھنڈی ہوائوں اور زیادہ ماحولیاتی دبائو نے مل کر ایک ‘ڈوم’ یا گنبد کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے اندرحرارت بند ہوگئی ہے ، دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے شمال مغرب میں میں گرمی کی شدت کا باعث بننے والا یہ ہیٹ ڈوم اتنا مضبوط ہے کہ ایسی مثالیں ہزار برسوں میں ایک بار سامنے آتی ہیں۔ تپش کی شدت سے سڑکوں کی کولتار کی سطح پگھل کر زمین سے الگ ہو گئی ہے اور ان پر ٹریفک ناممکن ہے۔امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں میں یہ موسمیاتی تبدیلی اتنی تیزی سے آ رہی ہے کہ وہ سیلاب جو کبھی سو سال میں پہلی مرتبہ کی شدت رکھتے تھے، اب ہر سال آتے ہیں اور امریکہ کے جنوب مغرب میں نصف درجن ریاستیں گزشتہ 20 برسوں میں سے 10 برس تک خشک سالی کا شکار رہی ہیں۔دنیا کی بڑھتی آبادی پر کام کرنے والی عالمی تنظیم”سینٹر فار دی فیوچر”دنیا میں کوئی بھی اس حیران کن موسمیاتی تبدیلیوں کے تیار نہیں اور امریکی تو بالکل تیار نہیں ہیں ،بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ کی آٹھ مغربی ریاستوں کے گورنروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں بڑے پیمانے پر جنگل میں آگ کے خطرے سے نمٹنے کے لئے نئے وفاقی اقدامات کا اعلان کیا۔صدر بائیڈن نے کہا کہ جب بات جنگل کی آگ کی ہو یا ہمارے فائیر فائیٹرز کی تو ہمیں پہلو بچانے کا خیال نہیں آنا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت میں انتہائی اضافے اور طویل خشک سالی کا باعث بن رہی ہے۔ اور ہم روایتی مہینوں کے بعد بھی آگ لگنے کے واقعات دیکھ رہے ہیں۔امریکہ میں خشک سالی سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی ریاستوں ایریزونا، کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور یوٹا کو سخت خشک سالی کا سامنا ہے جہاں خون جماتی سردی سے آبشاریں تک منجمد ہوجاتی تھیں،سورج ٹھنڈا پڑجاتا تھا،آج وہ علاقہ صحرا کی طرح تپ رہا ہے، سورج آگ بگولہ ہوکر سوا نیزے پر آگیا ہے،قدرت سے چھیڑ چھاڑ نے موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک کو بھی نہیں بخشا جہاں تاریخ میں پہلی بار قیامت خیز گرمی نے زندگیاں نگلنا شروع کردی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے کینیڈا کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ہے جن شہروں میں شدید سردی ہوتی تھی وہاں اتنی بدترین گرمی پڑ رہی ہے کہ ہیٹ ویو سے چار دن میں ڈھائی سو سے زیادہ لوگ دم توڑ چکے ہیں۔گرمی سے سب سے زیادہ مغربی علاقے متاثر ہوئے ہیں، کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں گرمی نے سب سے زیادہ قہر ڈھایا ہے،جہاں پارہ پچاس ڈگری تک جاپہنچا اور اسی سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، برٹش کولمبیا کے شہر وینکوور میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ حبس اور گھٹن سے ستر سے زیادہ افراد چل بسے،حالانکہ یہ علاقہ سرد ترین سمجھا جاتاہے اسی لئے گھروں میں اے سی لگانے کا رواج نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے یہی ہلاکتوں کی بڑی وجہ بنی کیونکہ گھروں کو سردیوں میں گرم رکھنے کا تو نظام تھا لیکن ٹھنڈا رکھنے کا کبھی سوچا ہی نہیں گیا اور نہ ہی ضرورت محسوس کی گئی۔برٹش کولمبیا کے مختلف علاقوں میں ٹھنڈے پانی کی مفت بوتلیں بھی بانٹی جا رہی ہیں ۔حبس اور گھٹن سے ہلاک ہونے والوں میں بزرگ اور بیمار شامل ہیں،شدید گرمی کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں شہر وینکورمیں ہوئیں،وینکوور میں 69 اچانک اموات رپورٹ ہوئیں،محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت گزشتہ جمعے سے بڑھنا شروع ہوا، جبکہ گرمی کی یہ لہر مزید جاری رہنے کی پیشگوئی کردی گئی ہے،کینیڈا کے شہریوں نے گرمی سے بچنے کے ساحل سمندر کا رخ کرلیا، جانور بھی گرمی سے بے حال ہوگئے ہیں،کینیڈا میں مزید کئی روز تک شدید گرمی کی لہر جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔دوسری جانب امریکا کے شمال مغربی علاقوں بھی شدید گرمی کی لہر میں ہیں، پورٹ لینڈ اور سیاٹل میں انیس سو چالیس کے بعد پہلی مرتبہ ریکارڈ چھیالیس ڈگری درجہ حرارت تک پہنچ گیا ہے۔