اسرائیل سے تعلقات : پاکستان کی فلسطینیوں کی حمایت!!!

0
29

نیو یارک میں مختلف سفارتی تقریبات اور تھنک ٹینکس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسرائیل سے تعلقات کے معاملے کو قومی موقف اور فلسطینی عوام کے مفاد کے ساتھ مشروط بتایا ہے۔نگران وزیر خارجہ نے کسی پاکستانی اہلکار کے دورہ اسرائیل کی دوٹوک انداز میں تردید کی۔بظاہر پاکستان اسرائیل تعلقات کی استواری کا پس منظر ان اطلاعات سے تشکیل پا رہا ہے جن میں اسرائیلی حکام کچھ مسلم ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر آمادگی کا بتا رہے ہیں۔ان اطلاعات کو اس لئے بھی توجہ مل رہی ہے کہ پچھلے تین چار برسوں کے دوران اسرائیل اور بعض خلیجی ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور اب یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ کاروبار کا نظام ترتیب دینے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں وقفے وقفے سے بات ہوتی رہی ہے۔اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا اگرچہ براہ راست کوئی تنازع نہیں لیکن مسلم امہ کے ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے طور پر پاکستان سمجھتا ہے کہ اسرائیل کی پالیسیاں خطے کے مسلم ممالک ،خاص طور پر فلسطینی عوام کا گلا گھونٹنے کا باعث بن رہی ہیں۔نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے الگ سے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی عوام کا مفاد پاکستان کو عزیز ہے ۔فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے خلاف اقوام متحدہ میں پاکستان کا غیر متزلزل موقف رہا ہے ۔ پاکستان کے موقف کا اظہار 1947 کے اوائل میں بانی پاکستان کے فرمان کی صورت میںکیا گیا تھا۔ قائداعظم نے بر صغیر اور دنیا بھر کے مسلم عوام کی آزادی اور آزادی کے مقصد میں گہری دلچسپی لی انہوں نے مسلم ممالک پر جارحیت کرنے والوں کی مذمت کی ۔ قائد اعظم نے 1948 میں انڈونیشیا پر ڈچ حملے کو پاکستان پر حملہ قرار دیااور انڈونیشیا میں جنگی سامان لے جانے والے ڈچ بحری جہازوں اور طیاروں کو ٹرانزٹ سہولیات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مسلم ممالک کی جدوجہد آزادی کے متعلق اصولی موقف اختیارکیا۔ اس لیے انڈونیشیا ملایا، سوڈان، لیبیا، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر میں آزادی کی تحریک کو ہر ممکن سفارتی اور مادی مدد فراہم کی۔فلسطینیوں کے لئے قائد کے دل میں خاص محبت اور ہمدردی تھی اسی لئے انہوں نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کو فلسطین کی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا۔ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی نہ صرف اسرائیل کی سرزمین میں رہنے والے عرب اور مسلم آبادی کے لیے اس کی حمایت سے جنم لیتی ہے بلکہ عرب یہودی علاقائی جدوجہد کے بارے میں اس کے خیال سے بھی ۔اس کی وجہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے ساتھ پاکستان کا تنازع ہے۔ جموں اور کشمیر پر تاریخی تنازع 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے برطانوی منصوبے کے بعد شروع ہوا، جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔اس تنازع کی وجہ سے اب تک دونوں ممالک چار جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا اسی طرح بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے،پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کشمیر کاز اور اس سے متعلق قانونی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہا ہے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد بھی پاکستان کا اسرائیل سے متعلق موقف مستحکم رہا۔1962 میں پاکستان نے باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ اقتصادی، ثقافتی، تجارتی اور سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اسلام آباد نے تمام عرب ممالک کو مطلعکیا کہ بائیکاٹ نافذ کیا گیا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کو ایک غاصب ملک کے طور پر دیکھتا ہے۔ پاکستان نے مقدس سرزمین کی آزادی کے حصول میں عرب دنیا کے ساتھ رہنے کا عہد کیا ۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے بعض عرب ممالک کی درخواست پر اپنے پائلٹ جنگ میں حصہ لینے کے لیے بھیجے۔ پاکستانی پائلٹوں نے جنگ میں کچھ اسرائیلی جیٹ طیاروں کو مار گرانے کے لیے اردنی اور شامی طیاروں کا استعمال کیا ۔ 1973 میں عرب اور اسرائیل کے درمیان ایک اور جنگ کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ و دفاع عزیز احمد نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی جنگی مظالم کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ”عربوں اور باقی دنیا نے 1967 میں سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد 242 کے مطابق مشرق وسطی میں پرامن تصفیہ کے لیے تقریبا چھ سال تک انتظار کیا۔ تنازع کو حل کرنے کی تقریبا ہر کوشش کی۔ اسرائیل نے بتا دیا ہے کہ اس کا کسی بھی قیمت پر مقبوضہ عرب علاقوں سے علیحدگی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل نے پرامن تصفیہ کے تمام امکانات کو کافی حد تک روک رکھاہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ عرب باشندوں نے ہتھیار اٹھا لیے ۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد، پاکستان نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے حکامکو پاکستان میں تربیت دینے پر اتفاق کیا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو فلسطین پاکستان کا عزم ہے جو مسلم امہ کی اجتماعی بہبود اور ایک دوسرے کی مدد کے تصور سے منسلک ہے۔دولت مند اور طاقتور ممالک کی دنیا بھلے کمزور اقوام پر ظلم ہوتا دیکھ کر اپنے کاروبار کو تحفظ دیتے رہیں لیکن اقوام متحدہ کا چارٹر اور بین الاقوامی قانون فلسطینیوں کو مظلوم ثابت کرتے ہیں۔اسرائیل اگر پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here