کھیل میں سیاست!!!

0
209
جاوید رانا

ہم اپنے زمانۂ طفلی سے اس محاورے کو سنتے آئے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ وقت کیساتھ اس کا ادراک ہوا کہ محبت کا عمل بھی دراصل جنگ کی ایک شکل ہے کہ اس میں بھی محبت کرنے والے کو صرف رقیب کی ہی نہیں ظالم سماج کی مخالفت بھی جھیلنے کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ دور میں ہیر اور رانجھا کے عشق اور کیدو کی مخالفت جیسے قصے نہ صرف قصۂ پارینہ بن چکے ہیں، بلکہ محبت اور جنگ کے معانی و مفاہیم بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ گلوبل منظر نامے میں ہر دو معاملات یعنی محبت و جنگ کے معیار برتری، مفادات، دوسروں کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طریقے سے مقابل کو زک پہنچانے پر استوار ہیں۔ آج کا دور حرب و ضرب سے ہٹ کر معاشی اور نفسیاتی برتری کیلئے نت نئے ہتھکنڈوں سے مخالفین کو زیر کرنے اور بیک فٹ پر دھکیلنے کی جنگ سے عبارت ہے۔ اس کیلئے متحارب قوتوں اور ممالک کے درمیان جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے، ہائبرڈ وار، نفسیاتی و معاشی دبائو کیساتھ اب کھیل جیسا دنیا کو جوڑنے والا مثبت فیکٹر بھی بالادستی کی سازش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونیوالی کرکٹ سیریز کی منسوخی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
دنیا کی واحد عالمی طاقت اور اس کی حلیف قوتوں کی 20 سالہ محاذ آرائی کے بعد طالبان سے شکست اور انخلاء کی شرمندگی کے بعد حالیہ منظر نامہ واضح طور پر دو بلاکس پر مشتمل نظر آرہا ہے۔ ایک جانب مغرب و امریکہ کی ہزیمت یافتہ قوتوں کا جُٹھ ہے جس کے اشتراک میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان سے ذلیل و خوار ہو کر آلہ کار بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیائی اور وسط ایشیائی ممالک، روس و ایران کا اتحاد ہے جو افغانستان و خطۂ میں امن اور معاشی ترقی کیلئے مصروف عمل ہے۔ پاکستان کا کردار اس عمل میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس تمام تر عالمی صورتحال میں پاکستان کا یہ کردار ان قوتوں کو کھٹک رہا ہے جو افغانستان میں قیام امن اور خطے میں معاشی ترقی کو اپنے مفاد کیخلاف سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے افغانستان سے غیر ملکیوں کے بحفاظت انخلائ، افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے روشن کردار کو دھندلانے کیلئے یہ قوتیں ہائبرڈ طریقوں سے سازشوں میں مصروف ہیں اور پاکستان کے امیج کو متاثر کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ سازشوں کے اس سلسلے کی ایک کڑی اس وقت سامنے آئی جب 18 سال بعد پاکستان سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کیلئے آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پہلا ون ڈے شروع ہونے سے قبل دہشتگردی کے الرٹ کی بنیاد پر سیریز منسوخ کر دی اور واپسی کیلئے کمر کس لی۔ ٹیم کو ہیڈ آف اسٹیٹ کی سیکورٹی کی فراہمی اور مکمل تحفظ کی ضمانت و یقین دہانی کے باوجود نیوزی لینڈ بورڈ اور متعلقہ حکام کھیل کیلئے راضی نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے تھریٹ کا ماخذ بتانے پر آمادگی ظاہر کی حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان کے کیوی وزیراعظم سے رابطہ و ضمانت پر بھی معاملہ حل نہ ہو سکا۔ بہرحال جب اس معمے کی گتھیاں سلجھیں تو اس سازش کی کڑیاں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی انٹیلی جنس ایجنسی Five Eyes سے جا ملیں اور اس میں را کی شیطانیت کے اشارے بھی ملے کہ سیریز کی تنسیخ پر سب سے زیادہ شادیانے بھارتی میڈیا، سیاسی اشرافیہ اور اسپورٹس حلقے بجاتے رہے۔ اب انگلینڈ نے بھی دورے سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے دورۂ پاکستان کی منسوخی کے پس پُشت امریکہ اور نیٹو ممالک نیز آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے سیاسی مقاصد کار فرما رہے تاہم اس میں بھارت نے اپنی ازلی دشمنی کے ناطے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قارئین کے علم میں ہے کہ اگلے ماہ ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ پہلے بھارت میں ہونا تھا جو بھارت کے کرونا کے بد ترین حالات کے باعث یو اے ای میں ہونا ہے۔ نیوزی لینڈ انگلینڈ کی ٹیموں کی پاکستان آمد سے یو اے ای اور پاکستانی پچز کی یکسانیت کے ناطے بہتر طور سے میچ پریکٹس کے مواقع ہونے تھے لیکن اب صورتحال کے بعد دیگر ٹیمیں یو اے ای میں آپس میں میچز کر کے پریکٹس اور آگاہی حاصل کر سکیں گی لیکن پاکستان کیلئے اس کا موقع کم سے کم ہوگا۔ بہرحال ان واقعات نے نہ صڑف ہماری کرکٹ انتظامیہ بلکہ ہمارے حکومتی، ریاستی خصوصاً انٹیلی جنس اداروں، سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کیلئے بہت سے سوالات چھوڑ دیئے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ بھارت نے اپنے وسائل کی بنیاد پر نہ صرف اہم حیثیت اختیار کی ہوئی ہے اور وہ ICC کے موجودہ نیوزی لینڈر سربراہ کے انتخاب میں بھی بھارت محرک تھا جبکہ پاکستان کے تحفظات تھے۔ دیکھا جائے تو اس وقت آئی سی سی انٹرنیشنل نہیں بلکہ انڈین کرکٹ کونسل بن گئی ہے۔
اس کے اثرات ہونا بعید از قیاس نہیں تھا۔ 2002 ء میں نیوزی لینڈ کا دورۂ پاکستان ٹیررسٹ الرٹ پر ختم ہوا، اس پس منظر میں کیویز کے موجودہ دورے پر متعلقہ اداروں کا روٹین ایڈوائزری کا کیا جواز بنتا تھا؟ اسی طرح نیوزی لینڈ کے اعلان منسوخی پر رمیز راجہ اور وزیر داخلہ کا رد عمل کیا حالات میں اعتدال لانے کیلئے مناسب تھا؟ سب سے بڑھ کر اس قومی ایشو پر مریم کا سبز پاسپورٹ کے حوالے سے عمران خان پر طعنہ زنی ہماری قومی وحدت کے انتشار کی نشاندہی تھا۔ یقیناً یہ سارے عوامل ہماری یکجہتی، اتحاد اور قومی بیانیہ پر منفی اثرات کا باعث بنتے ہیں اور ہم سے عناد رکھنے والوں کو ہمارے منفی تاثر کے ابلاغ کا راستہ مہیا کرتے ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں کہ کسی ملک کے خارجی اور قومی معاملات کی کامیابی اور پذیرائی کی بنیاد اس کے داخلی امور میں استحکام، یکسوئی اور قومی وحدت پر ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور موجودہ حکومت کے خارجی امور پر نمایاں اقدامات کے ساتھ خطے کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے اہم کردار و اہمیت کے باوجود ہمارے داخلی جھگڑوں اور زُود بیانی ہماری مخالف قوتوں خصوصاً بھارت کیلئے عالمی برادری میں ہماری جدوجہد کو منافی رول ادا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ داخلی معاملات میں توازن رکھنے کیلئے جہاں مخالف سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کو عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، وہیں ہمارے اکابرین کو بھی تحمل، برداشت اور معاملہ فہمی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت ماں جیسی ہوتی ہے اور بحث و مباحثہ، الزام در الزام کی جگہ مفاہمت اور معاملات کے حل کے ذریعے قومی استحکام کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ عوام کے مسائل کا حل، سیاسی چُپقلشوں میں متوازن رویہ اور باہمی مشاورت قومی امن و استحکام کے ضامن ہوتے ہیں۔ ہمارا مؤقف یہی ہے کہ خارجی کامیابیوں اور عالمی منظر نامہ میں نمایاں مقام، داخلی امن و استحکام کے بغیر دُشوار ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here