فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! گیارہ ہجری تین رمضان المبارک کو حضرت سیدہ کائنات فاطمتہ الزہراہ رضی اللہ عنھا کا وصال باکمال ہوا۔ آپ رضی اللہ عنھا نے ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری۔ حضرت فاطمة الزہرا وسلام اللہ علیھا ہمارے آقا علیہ السلام کی سب سے چھوٹی اور چوتھی صاحبزادی ہیں۔ آپ کا اسم گرامی فاطمہ ہے اور ایک سو پینتیس سے لگ بھگ آپ کے القابات ہیں۔ فاطمہ نام رکھنے کی وجہ خود حضورۖ نے بیان فرمائی ہے۔ فرمایا: ”میں نے اپنی بیٹی کا نام اس لئے فاطمہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کا ادب و احترام کرنے والوں کو دوزخ سے بچا لیا ہے؟ فاطمہ کا لفظ فطم سے ہے جس کا معنیٰ ہے جدا کرنا اور اس کا مفہوم اس طرح بھی ہے کہ آپ دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے تعلق نہ رکھتی تھیں۔ آپ کو بتول اس لئے کہا جاتا ہے کہ بتول بتل سے ہے۔ اس کا معنیٰ ہے کاٹنا، جدا کرنا، آپ بھی طہارت اور فضلیت سب کے اعتبار سے دنیا کی تمام عورتوں سے جدا ہیں۔ علامہ تاج الدین سبکی کے مطابق آپ کی شان حضرت مریم رضی اللہ عنھا سے بھی اس وجہ سے زیادہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا حضورۖ کے جسم اقدس کا حصہ ہیں۔ حضورۖ نے فرمایا: اے فاطمہ! کیا تو اس فضلیت سے خوش نہیں کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو؟ مزید حضورۖ نے فرمایا: جس نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور فاطمہ مجھے سب سے پیاری ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عورتوں میں حضورۖ کو سب سے زیادہ پیاری فاطمہ تھیں اور مردوں میں ان کے شوہر علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم زہراء لقب بھی آپ رضی اللہ عنھا کا بہت مشہور ہے۔ اس کا معنیٰ ہے جنت کی کلی۔ آپ کا یہ لقب اس لئے ہے کہ آپ کے ہاں حسن وحسین رضی اللہ عنھا کی پیدائش عصر کے بعدہوئی۔ اور آپ چونکہ حیض ونفاس سے پاک تھیں۔ اس لئے آپ نے ”عصر بھی پڑھی اور نماز مغرب بھی ایک نماز بھی قضا نہ ہوئی۔ جہان انسانیت میں توحید کا مقدس خیال زہرائ، شرف میں وحدت، اداامامت، جبیں، نبوت جمال زہراء سیدہ رضی اللہ عنھا بچپن میں ہی سادہ طبیعت رکھتی تھیں۔ دیگر بہن بھائی اگر کھیل میں بھی مشغول ہوتے تو آپ اپنی امی جان حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔ حضورۖ کی ساری اولاد سے آپ کی فضلیت اس لحاظ سے بھی زیادہ تھی کہ آپ اس وقت پیدا ہوئیں کہ جب حضورۖ نے نبوت کا اعلان فرما دیا تھا۔ قریش کعبہ شریف کی تعمیر کر رہے تھے۔ قرآن نازل ہو رہا تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا جب اپنی امی جان کے بطن اطہر میں تشریف لائیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نو ماہ تک (جنت کی) خوشبو آتی رہی اور جب آپ پیدا ہوئیں تو یہ خوشبو ادھر سے ختم ہوگئی مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے پھر بھی آتی رہی جس سے پتہ چل گیا کہ یہ اسی جنت کی کلی کی خوشبو تھی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جب ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا تو حضورۖ ممبر پر جلوہ گر ہوئے۔ اور فرمایا: خدا کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن(ابوجہل)، کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارادہ ترک فرمایا: اور حضرت سیدہ رضی اللہ عنھا کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔ ایک حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنھا کے درمیان کسی بات پر رنجش ہوگئی۔ حضورۖ نے صلح کروائی اور بہت خوشی خوشی واپس تشریف لائے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے اسی خوشی کا سب پوچھا تو آپ نے فرمایا میں نے آج ایسے دو شخصوں میں صلح کروائی ہے۔ جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہیں۔ حضورۖ نے جب بھی سفر کرنا ہوتا، غزوہ کیلئے یا عام سفر کے لئے تو جاتے وقت سب سے آخر میں اور واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر تشریف لاتے تاکہ جدائی کم سے کم ہو۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی بھی ہوگئی تو حضورۖ روزانہ دو مرتبہ اپنی بیٹے کے پاس تشریف لے جاتے۔ اور مکان ذرا دور ہونے کی وجہ سے حضورۖ کی بارگاہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے عرض کیا! ہمارے پاس مکان خریدنے کے لئے تو رقم نہیں ہے۔ فلاں صحابی کا مکان خالی ہے اور آپ کے قریب بھی ہے۔ وہ مکان ہمیں مانگ دیں آپ نے فرمایا: مجھے مانگتے ہوئے تو حیاء آتی ہے۔ ادھر صحابی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے بلا معاوضہ ہی مکان پیش کردیا۔ حضرت فاطمتہ الزہراء اسلام اللہ علیھا کی شان عبادت یہ ہے کہ ساری ساری رات کبھی رکوع میں گزار دیتیں۔ کبھی سجدے اور قیام میں اور عرض کرتیں یا اللہ! کاش اتنی لمبی رات ہوتی کہ میں خوب سیر ہو کر تیری عبادت کرلیتی۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کبھی ساری رات دعا میں گزار دیتیں اور میں سنتا رہتا تھا۔ ایک لفظ بھی اپنے لئے نہیں ہوتا۔ ساری دعا حضورۖ کی امت کی بخشش کے لئے ہوئی۔ میں نے ایک بار عرض کیا کہ کچھ اپنے لئے بھی مانگ لیا کریں۔ فرمایا: بیٹا! اپنا حق بعد میں ہوتا ہے پہلے امت کا حق تو ادا کرلوں۔(مدارج النبوت) اللہ تعالیٰ آپ سلام اللہ علیھا کے درجات بلند فرمائے۔ اور آپ رضی اللہ عنھا کے فیضان عبادت ورضا سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭