ماہ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر ہر طرف شیادانے اور خوشیوں کا سماں ہوتا ہے ، اللہ کے گھر مساجد میں رونقیں لوٹ آتی ہیں، ہر کوئی سحری اور افطاری کے اہتمام میں مصروف دکھائی دیتا ہے ، صبح انتہائی سحر کے دوران خالی گلیوں کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں اور صبح سویرے ہی دن جیسا سماں ہوتا ہے ، ماہ رمضان کے حوالے سے امریکہ میں بھی اس مرتبہ سرگرمیاں بہت عروج پر ہیں جن میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ امریکی حکومتی عہدیداران بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ افطاریوں کا اہتمام کروا رہے ہیں۔پہلے عشرے کے دوران مسلمانوں نے پورے جوش و خروش اور بھرپور عبادات سے اللہ تعالیٰ سے رحم طلب کیا اور اب مغفرت مانگنے کے لیے دوسرے عشرے میں داخل ہوگئے ہیں۔نیویارک میں مسلم تنظیمیں مسلم کمیونٹی کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کر رہی ہیں ، جبکہ کئی تنظیمیں روزانہ کی بنیاد پر مسلم کمیونٹی کے لیے مفت افطاریوں کا اہتمام کر رہی ہیں، امریکہ کے حکام بھی بڑے پیمانے پر افطاریوں کا اہتمام کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ امریکہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلم کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا ہے ، امریکہ کے الیکشن میں مسلم اور پاکستانی کمیونٹی بڑا متحرک کردار ادا کر رہی ہے جس کی وجہ سے حکومتی عہدیداران مسلم کمیونٹی کو اہمیت دے رہے ہیں۔مسلمانوں کی دوسری نسل اس وقت امریکہ کی مین سٹریم میں پہنچ گئی ہے ، ہر اعتبار سے ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے ، مسلمانوں کی امریکہ میں تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔امریکہ کی حکومتی عہدیدارن کے ساتھ مختلف مذاہب کے لوگ بھی ماہ رمضان کے دوران مسلم کمیونٹی کے لیے نہ صرف افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ سحری اور افطاری کروانے میں اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں، ہیوسٹن میں مقیم پاکستانی ہر سال افطار ڈنرز کا اہتمام کرتے ہیں، جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رمضان میں مسلمانوں کے لئے افطار پارٹیاں سجاتے ہیں۔ہیوسٹن سمیت پورے امریکہ میں رہنے والی سکھ کمیونٹی مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتی ہے جس کا مظاہرہ صرف مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف مظاہروں میں ہی نظر نہیں آتا ہے بلکہ ماہ رمضان میں بھی سکھ کمیونٹی کے افراد مسلمانوں کے لیے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ میں مساجد کی تعداد میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں اس وقت 2100 سے زائد مساجد موجود ہیں جو 11 ستمبر کے حملوں سے ایک برس قبل تک امریکہ میں موجود مساجد سے 74 فی صد زیادہ ہیں۔ امریکی مسلمانوں میں اپنے مذہبی اجتماعات شہروں کے نواحی علاقوں میں منعقد کرنے اور معاشرے میں گھلنے ملنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔مساجد کی تعداد کے اعتبار سے نیویارک امریکہ بھر میں سرِ فہرست ہے جہاں 257 مساجد ہیں۔ کیلی فورنیا 246 مساجد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ لگ بھگ 26 لاکھ مسلمان عید کی نماز مساجد میں ادا کرتے ہیں جو اسلام کا سب سے بڑا تہوار ہے۔امریکہ کی مسلمان آبادی 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو امریکی مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں عموماً بیان کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ الیکشن میں مسلم کمیونٹی کے کردار کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ امریکہ کی مسلم اور پاکستانی کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ امریکہ میں کسی ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہونے کی بجائے دونوں سیاسی جماعتوں سے اپنی وابستگی کو ظاہر کرے ، تاکہ مستقبل میں انہیں کسی جماعت کے ساتھ ان کو ٹیگ نہ کیا جا سکے ، مسلم کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں جماعتوں کے ساتھ سیاسی وابستگی کو پروان چڑھائے اور ملکی ترقی میں باقی شہریوں کے ساتھ اپنا حصہ بھی ڈالے ۔امریکہ کی قیادت اور مین سٹریم میں موجود عہدیداران کو مسلم اور پاکستانی کمیونٹی کی اہمیت کا باخوبی اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ اب ان کا جھکائو یہودیوں کی بجائے پاکستانیوں کی طرف زیادہ ہونے لگا ہے ، وہ مسلم کمیونٹی کو اہمیت دے رہے ہیں ، ان کے سیمیناز، افطار پارٹیوں میں نہ صرف شرکت کررہے ہیں بلکہ خود بھی افطار پارٹیوں کے نعقاد سے مسلم اور پاکستانی کمیونٹی میں اپنی پہچان اور مقام بنا رہے ہیں جوکہ امریکہ کے مستقبل کے لیے خوش آئند بات ہے ، کمیونٹیز جتنا زیادہ اس معاشرے میں فعال کردار ادا کریں گی اتنا ہی ترقی کے مواقعے بھی بڑھیں گے ۔
٭٭٭