ظلم کے یہ ضابطے!!!

0
38
شبیر گُل

اللہ بارک قرآن میں فرماتے ہیں کہ اگرہم انسان معاشرہ میں آزادی کی جدوجہد نہیں کرینگے۔ عوام الناس سے انصاف نہیں کرینگے ۔ تو بھوک، پریشانی،مصائب، مشکلات اور تنگی انکا مقدر ہو گی۔پاکستان روز ازل سے افراتفری، فرقہ واریت، لسانیت ،مصائب،مشکلات، پریشانیوں، بھوک، افلاس،بدامنی اور یتیمی کا شکار رہا ہے۔ کیونکہ ہم ظلم کے نظام اور معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔ جس معاشرہ میں ظلم اور ناانصافی ہو وہ معاشرہ ترقی نہیں کرتا۔جہاں غریب اور مظلوم کی سسکیاں، آہیں اور بدعائیں ہوں وہاں امن و سکون میسر نہیں آتا۔اس مملکت خدادا کے حکمران جو بھی رہے۔ چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری کفن میں ملبوس اسٹبلشمنٹ کے کتے۔ اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ کرپٹ جرنیلوں نے پورے سسٹم کو یرغمال بنارکھا ہے۔اپنے پالتو جانوروں کو قوم پر مسلط کرتے ہیں پھر جمہوریت کی چھتری تلے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان بدمعاش ،سفاک اور جانورجرنیلوں کو کھل کر سامنے آنا چاہئے۔ کیا وجہ ہے کہ ریٹارمنٹ کے بعد یہ جرنیل اور جج ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔زندگی کے آخری ایام سسک سسک کر گزارتے ہئں۔انکے جنازے بند کمروں میں ھوتے ہیں جہاں درجن سے زیادہ لوگ جنازہ نہیں پڑتے۔ انکی یہ اوقات ہے۔اپنے مظالم،عوام میں نفرت اور اپنے کرتوتوں کی وجہ سے عوام سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ غیروں کے وفادار ہیں ۔ جنہوں نے کافر کے بچوں کو پڑھانا ہے اور اپنے بچوں کو ذبیح کرنا ہے۔ اپنی بچیوں کو غیروں کے سپرد کرنا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی بے شرم فورسیز نہیں ھونگی ۔ جو سرحدوں پر انڈین اور افغانیوں سے مار کھاتے ہوں اور اسکا بدلہ قوم کی بچیوں، بوڑھوں ،اور معصوم بچوں سے لیتے ہوں۔ ارشد شریف ،عمران ریاض اور اوریا مقبول جان سے لیتے ہوں۔ سچ بولنے کی جرآت نہیں اور سچ سننے کا حوصلہ نہیں۔ انکی آنکھیں اور کان بند ہیں۔ایسی بے شرم فور عوام کی جوتے کی نوک پر ہیں ۔ جن کا وطیرہ فرعونیت اور یزیدیت ہو۔ جو سفاکیت کی انتہا پر ھوں ۔ جنہوں نے بربرئیت کا مثالیں قائم کی ہوں۔ یہ بزدلوں کی فورس ہے۔ جو ارشد شریف کو قتل کرتی ہے۔ معصوم عبادپر ظلم کرتیں ہیں ۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ کے سپرد کرتی ہے۔عورتوں کو ناحق جیل میں ڈالتی ہیں۔ گھروں کی توڑ پھوڑ کرتیں ہیں۔ یہ حیوان ظالم درندے ہیں ۔ ڈفر اور جانور ہیں۔ شائد ایسے ظالم بن باپ پیدا ھوتے ہیں۔ جنہیں اللہ اور رسول خدا کا خوف نہیں۔ آخرت کی جوابدہی کا احساس نہیں۔ اپنے خلف کا پاس نہیں۔یہ کرپٹ اور سفاک حیوان ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کرپٹ انسان حرامی النسل ہوتا ہے۔ جنکے نزدیک انسانیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اخلاقی قدروں سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ کڑوڑ کمانڈرز ہیں ۔جن کا ایمان ڈالر اور پلاٹ ہے۔ انہیں ملک کی بربادی، معشیت کی تباہی۔ کا کوئی احساس نہیں۔ ظلم کے یہ ضابطے ھم نہیں مانتے۔ قارئین ! جب آنکھیں اور کان بند کر لئیے جائیں۔ تو آپ نہ حقائق بھانپ سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔ھمارے اسٹبلشمنٹ کے اداروں کی آنکھیں اور کان بند ہیں۔یہ آنکھیں 1971 میں بھی بند تھیں۔ آ ج بھی بند ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے وفادار کتے ہی بٹھانے ہیں۔ تو انہیں الیکشن ایکسرسائز کی کیا ضرورت ہے انکی نگرانی میں الیکشن جھوٹ، مکر و فریب اور فراڈ ہوتے ہیں۔ اربوں روپے کا ضیاع ہر تین سال بعد کرنے کے ضرورت کیا ہے۔ ڈکٹیڑ کھل کر سامنے آئیں۔جمہوری چھتڑی میں پناہ مت لیں۔ جھوٹ اور منافقت سے باہر آئین۔اپنی ٹوپی جمہوری دیوار کے پیچھے مت چھپائیں۔زبانیں بند کرنے سے کیا ہوگا ۔ایکبار قصہ تمام کریں ،عوام پر ایٹم بم برسا دیں ۔ان بزدل قومی مجرموں کو کھل کر وردی سمیت سامنے آنا چاہیے۔
میرے ملک کا بیڑا غرق کرنے والے قومی درندے ملک و قوم پر رحم کریں ۔ کہیں ایسا نہ ھو کہ کالے کرتوتوں کی وجہ سے خاکی وردی چھپاتے پھریں۔ جیسے پولیس کے خلاف لوگوں میں نفرت ہے۔ ایسی نفرت اس عظیم ادارے کے لئے پیدا نہ کریں۔آنکھیں اور کان کھولیں ۔یہ ملک بچے گا تو آپکی عزت اور وقار بچے گا۔میرا ماننا ہے کہ نو مئی کے واقعات جرنیلوں کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔یہ کونسا قانون ہے جہاں لوگوں کو گھروں سے اٹھالئں۔ غائب اور قتل کردیں۔ بچوں کے ساتھ سفاکی کریں۔ کیا آپ لوگ کسی فرعون کی اولاد ہیں یا یزید کے بچے ہیں ۔ جو گھروں میں گھس کر عورتوں پر تشدد کرتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کو اغوا کرتے ہیں ۔ دنیا میں کسی بھی ملک کی فورسیز ایسے گھناونے جرائم کا ارتکاب نہیں کرتیں۔
انڈین اور اسرائیلی فورسیز بھی اتنی درندگی اور ظلم نہیں کرتیں۔ جتنا ظلم ہماری فورسیز عورتوں اور بوڑھوں سے کرتی ہے۔ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں۔ کیا پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ اور مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ کیا ھماری فورسیز کلمہ گو ہیں۔ ؟ یا کفار کی فورسزہیں۔
قارئین کرام !۔ ہمیں بحیثیت قوم فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس سسٹم اور نظام کے خلاف بغاوت کرناہوگی۔ پاکستان کی بقا سالمیت اور روشن مستقبل کے لئے متکبر اور بدمعاش طبقہ کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ آئین شکنوں کو سزائیں دیناہوں گی۔آئین یتیم اور مفلوج ہے جنہوں نے آئین کو یتیم اور بے توقیر کیا ہے۔ان کیخلاف ایکشن لینا ہوگا اگر قانون اور آئین کی بینڈ بجا کر معاملات درست ہوسکتے تو ماضی کے ڈکٹیٹر یہ کام کرکے دیکھ چکے ہیں آج انکا نام انتہائی حقارت سے لیا جاتا ہے۔ریگینگ الیکشن۔ اور managed الیکشن مسائل کا حل ہوتے تو ستر سال سے ان الیکشنز سے کچھ حاصل نہیںہوسکا۔ سیاست تقسیم۔ عدلیہ تقسیم۔ بیوروکریسی تقسیم۔ وکلا برادری تقسیم ۔محراب و منبر تقسیم ۔ جمہوریت کو دوام کے لئے جب تک یکسوئی پیدا نہیں ھوگی۔ معاملات درست نہیں ھونگے۔ سبھی اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آنا ھوگا۔ جمہوریت۔ عدلیہ ۔ آئین اور قانون کی خفاظت کے لئے وقتی فائدے چھوڑ کر ملک سے محبت اور وفاداری نھبانا ھوگی۔ اسٹبلشمنٹ کو (نکی جئی ناں کہنا سیکھنا ھوگی)اپنے گریبان میں جھانک کر غیرت کو ٹٹولنا ھوگا۔آئینہ دیکھ کر ضمیر جگانا ھوگا۔ ھم آئی ایم ایف۔ ورلڈ بینک اور خلیجی ریاستوں کی غلامی میں ہیں ۔ھماری حالت بھکاریوں سے بدتر ھوچکی ہے۔ پاکستان کو اسلام کاقلعہ کہتے ہیں ۔لیکن کشکول لئے در بدر ہیں۔ گزشتہ طالع آزما ایوب خان ۔ یحی خان۔ ضیاالحق۔ پرویز مشرف نے کو نسا تیر مار لیا تھا۔ جو جنرل عاصم منیر یا موجودہ اسٹبلشمنٹ کر لے گی۔ ڈنڈہ سے معاملات کبھی درست نہیں ھونگے۔ملکی سلامتی عورتوں کو جیلوں میں ڈالکر نہیں ھوگی۔ پرویز الہی۔ شیخ رشید اور عمران خان کو جیل میں ڈالکر نہئں ھوگی۔ صحافیوں کو اٹھا کر نہئں ھوگی۔ زورزبردستی سے ملک اندھیروں کیطرف جاتا ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ الیکشن ملکی حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرینگے۔ صرف فئیر۔ فری۔ شفاف اور بغیر مداخلت الیکشن ہی ملکی سلامتی کے ضامن ہیں ۔دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے۔ خطے کے حالات تبدیل ہورہے ہیں لیکن ہم اپنے عوام پر جبر اور زبان بندی میں وقت برباد کررہے ہیں۔ ہماری نہ کوئی سفارت کاری ہے اور نہ ڈپلومیسی،کشکول ھمارا مقدر ۔ظلم و زیادتی وطیرہ ہے۔ اسی لئے اللہ کی رحمت روٹھ گئی ہے۔ برکت اٹھ گئی ہے۔ چوروں، ظالموں اور حیوانوں کو سروں پر بٹھانے سے دنیا سے کٹ گئے ہیں۔موجودہ حالات میں ھمارا نا کوئی ویثرن ہے اور نہ کوئی حکمت عملی ۔ قوم کو دکھاتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ حکمران، جرنیل، جج سبھی منافقوں اور جھوٹوں کا ٹولہ ہے۔ جنہیں موجودہ صورتحال کا ادراک نہیں۔ نگران سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں ۔ خطہ میں امریکہ کے اتحادی بھارت کو سی آئی اے کا ساتھ نہ دینے پر امریکہ بھارت سے ناراض ہے۔ امریکہ نے جسے چین کے خلاف پالا تھا وہ اسے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ مودی اپنی معیشت کے بل بوتے پر ہر ایک سے پنگا لینے پر تل گیاہے۔ مودی رجیم تکبر میں اپنے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے۔ خالصتان تحریک کے رہنما کو کینڈا میں قتل کردیا گیا۔ جس سے سکھ کمئونٹی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ انڈیا اسرائیلی طرز پر سکھ لیڈروں کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔ جیسے حماس کے رہنماں کو اسرائیلی دہشتگرد سیکورٹی اداروں نے ٹارگٹ کیا۔آج یہی کام ہماری فورسیز کر رہی ہیں۔
انڈیا اپنی معیشت کے بل بوتے پر کینڈا،امریکہ اور برطانیہ کے سامنے کھڑا ھوگیا ہے۔بھارت ایشا میں امریکہ کا وہ کتا ہے۔جو ایشیا میں سی آئی اے کو سپورٹ کرتا ہے۔سی آئی اے چین کے خلاف اسکی پشت پر کھڑا ہے۔بھارت امریکہ کی چال میں نہیں آیا ۔اسے پتہ ہے کہ اگر ھم چائینہ کے خلاف لڑے تو بھارت کھنڈر بن جائیگا۔لیکن ھم نے چین اور روس کے خلاف یوکرائن کو اسلحہ بھیجا۔ ہمارا کردار ہمیشہ سے منافقانہ رہا ہے اس لئے مشکل وقت میں تنہائی ھمارا مقدر ھوا کرتی ہے۔ ھماری مثال ایسی ھے کہ ھم سامنے آتے بھی نہیں اور چھپتے بھی نہیں۔
انکے بٹھائے گئے نگران عوامی مسائل سے قطع نظر امریکہ اور یورپ کے دورے اور شاپنگ میں مصروف ہیں۔ یہ جب اقتدار سے باہر یا اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے پیٹ میں عوام کی محبت کا مڑوڑ اٹھتا ہے۔ اقتدار میں آتے ہی یہ فرعون بن جاتے ہیں۔ کوئی ایسا حکمران نہیں جو بیرونی دوروں پر باپ کا مال سمجھ کر سیر سپاٹے نہ کرتا ھو۔ لٹیروں کا ملک ہے، ہمیشہ لٹیرے حکمران رہے ۔قانون ،آئین اور طاقتور ادارے عوام کو نہ ریلیف دیتی ہیں اور نہ انصاف۔پاکستان میں ذخیرہ اندوزوں اور کرپٹ مافیاز کو تخفظ رہا ہے۔ اس ملک میں حکمران طبقہ نظریہ پاکستان کو ملیا میٹ کرتا ہے۔ آئین کو پامال کرتا ہے۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے یا ،موجودہ منظر نامہ پر غور کیا جائے تو عام آدمی کی زندگی مہنگائی،بے یقینی عدم تخفظ کا شکار ہے۔ روزمرہ کے کھانے کی اشیا کی دستیابی مشکل اور عوام کا جینا محال ھوچکا ہے۔ اسٹبلشمنٹ ھو یا عدلیہ،عوام کی مشکلات سے بے خبر ڈھنگ ٹپا پالیسی پر عمل ہیرا ہیں۔خوف خدا سے عاری حکمران طبقہ خلق خدا پر قہر برسا رہا ہے۔ تیل، بجلی، اشیا خوردونوش مئں ھوشربا اضافہ سے غریب اور متوسط طبقہ خودکشیوں پر مجبور ہے۔ عام آدمی پر بلوں کا پہاڑ لاد دیا گیا ہے۔ اگر مسجد کو بجلی کا بل آ سکتا ہے تو کیا جرنیل،کرنیل،ججز اور بیوروکریٹس اللہ کے گھر سے زیادہ مقدس ہیں ۔سیاستدانوں، سینٹرز،ارکان اسمبلی، جوڈیشری، بیوروکریسی اور جرنیلوں کو مفت بجلی ،پانی،گیس اور تیل کی سپلائی بند کیا جائے۔یہ فرعونوں کے ٹولے ہیں۔ جنہوں نے عام آدمی سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ یہ غنڈہ گردی اور بدمعاشی بند ہونی چاہئیے۔ عوام انکے بل کیوں ادا کریں۔ عوام چور ڈاکو ، اشرافیہ اور بدمعاشیہ کے خرچے کیوں اٹھائے۔ انکو مراعات تب دیں جب عام آدمی کے کو دیلیف ملے۔قوم کو سیکورٹی ملے۔ ادارے اور مافیاز بے لگام ھیں۔۔ قوم کو ان مجرموں کے خلاف۔ ان ڈکٹیٹروں کے خلاف، ان مافیاز کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا۔ یہ ملک ہمارا ہے ۔ہم نے ہی اسے بچانا ہے۔ اس لئے اپنا اپنا حصہ ڈالئے (مبادا کہیں دیر نہ ھوجائے)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here