ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ کامیابی میں امریکی مسلمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔2020ء کے انتخابات میں بھی مسلم ووٹرز نے ڈونلد ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ متنازعہ شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کوئی سرپرائز دے سکتے ہیں۔ انتخابات سے چند دن قبل اچانک ڈونلد ٹرمپ نے پالیسی بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر مشرق وسطی میں فوری امن لانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اسرائیل و فلسطین کی جنگ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ امریکہ، برطانیہ اور پورپ میں مسلمان اور دیگر اقلیتی ووٹرز عموما بائیں بازو کی جماعتوں کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں یہاں پر دیگر ممالک سے ہجرت کرکے آباد ہونے والوں کے حوالے سے نرم پالیسی کی حامل ہوتی ہیں۔مثلا برطانیہ میں مسلم ووٹرز کی اکثریت ہمیشہ لیبر پارٹی کی حامی رہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ میں بھی مسلم ووٹرز زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ 2016 ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا ویسے بھی جنگ مخالف سمجھتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سابقہ دور صدارت میں امریکہ نے دنیا بھر میں کہیں کوئی بڑی مہم جوئی نہیں کی بلکہ انہوں نے پاکستان اور اس کے وزیر اعظم عمران خان کی سہولت کاری کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کئے اور افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا فیصلہ کیا۔ لہذا ان کا یہ اعلان کہ وہ مشرق وسطی جنگ کو ختم کردیں گے کو مسلم آبادی نے ایک انتخابی نعرے کو طور پر نہیں لیا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے مسلم ووٹر ڑکو ان کا حامی بنا دیا۔ ان دو عوامل نے ملکر انتخابات سے چند دن قبل تک یہ صورت حال پیدا کردی تھی کہ امریکہ کی تمام ریاستوں میں مسلم ووٹرز نے صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کردیا اور یہ ایک حقیقت کے امریکہ میں تقریبا تمام مسلم ووٹرز نے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی ووٹ ڈالا۔ اس پس منظر کے بعد اب آتے ہیں مسلم ووٹرز کے صدر ٹرمپ کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار کے بارے میں۔ امریکہ میں مسلمان کل آبادی کا دو فیصد سے بھی کم ہیں۔ جی دو فیصد سے بھی کم! کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ دو فیصد آبادی کسی ملک کے صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے ؟ اس کا فوری جواب تو نفی میں بنتا ہے لیکن جب آپ اعداد و شمار کو دیکھیں گے تو اپنے رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ویسے تو مسلمان امریکہ کی تمام ریاستوں میں آباد ہیں لیکن کم از کم 5 ریاستوں کے 76 الیکٹورل ووٹوں کے فیصلے میں مسلم ووٹرز نے فیصلہ کن کردار کیا۔ اگر ان ریاستوں میں مسلم ووٹرز ٹرمپ کو نہ ملتے تو یہ الیکٹورل ووٹ کمالہ حیرس کو مل جاتے۔ اور یوں ٹرمپ کے ایکٹورل ووٹ صرف 236 ہوپاتے جبکہ یہ 76 ووٹ کمالہ کو ملنے سے ان کے ووٹ 302 بن جاتے اور وہ انتخابات جیت جاتیں۔ ان ریاستوں میں پہلی ریاست وسکونسن کی ریاست ہے جس میں ٹرمپ 29417 ووٹوں کی برتری سے جیتے جبکہ اس ریاست کی مسلم آبادی 70 ہزار کے قریب ہے۔ اس ریاست کے الیکٹرول ووٹ 10 ہیں۔ دوسری ریاست مشیگن کی ہے جس میں مسلم ووٹرز کے کردار کی بات تو ہر کوئی کررہا ہے۔ یوں ان 4 ریاستوں کے 60 الیکٹورل ووٹوں کی جیت میں مسلمانوں کا کردار ناقابل تردید حقیقت ہے۔ پانچویں ریاست شمالی کرولینا کی ہے۔ جس میں ٹرمپ 189311 ووٹوں کی لیڈ سے جیتکر 16 الیکٹورل ووٹوں کے حقدار بنے جبکہ اس ریاست میں مسلم آبادی 1 لاکھ تیس ہزار کے قریب ہے۔ اگرچہ یہاں مسلم آبادی ٹرمپ کی لیڈ سے کم ہے لیکن فرض کریں یہاں مسلم ووٹرز کی تعداد 90 ہزار ہے۔ اگر وہ 90 ہزار ووٹ ٹرمپ کی جگہ کمالہ کو ملتے تو ٹرمپ کے ووٹ 90 ہزار کم ہوجاتے اور کمالہ کے ووٹوں میں 90 ہزار کا اضافہ ہوجاتا اور یوں یہاں چند سو یا ہزار ووٹوں پر فیصلہ ہوتا جو شاید ٹرمپ کے خلاف ہی جاتا۔ لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ کے موجودہ انتخابات میں دو فیصد سے کم آبادی رکھنے والی مسلم اقلیت ہے فیصلہ کن کردار ادا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اب دنیا بھر کہ مسلمانوں کے لئے صدر ٹرمپ کا دور اقتدار خوشخبریوں سے لبریز ہوگا۔ نہ ایسا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی اسرائیل نوازی میں کوئی بڑی کمی آ جائیگی۔ اس میں ٹرمپ 80618 ووٹوں سے جیتکر 15 الیکٹورل ووٹوں کے حقدار ٹھہرے جبکہ یہاں کی مسلم آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ تیسری ریاست جورجیا کی ہے جہاں کے 16 الیکٹورل ووٹ ٹرمپ کا حق قرار پائے کیونکہ وہ یہاں سے 116775 ووٹوں کی لیڈ سے فاتح قرار دیئے گئے جبکہ اس ریاست میں سوا لاکھ کے قریب مسلم آباد ہیں۔ پنسلوینیا کی انتخابات پر تو پوری دنیا کی نظر تھی کیونکہ اس ریاست کے الیکٹورل ووٹ 19 ہیں۔ ٹرمپ ان ووٹوں کے بھی فاتح قرار پائے کیونکہ وہ اس ریاست میں 145036 کی سبقت سے میدان مارنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اس ریاست میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسلم آباد ہیں۔
٭٭٭