ایک ماں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ چاہے وہ لڑکی ہو کہ لڑکا ہو ایسا ہو کہ دنیا اس پر رشک کرے۔
خواہش کے عین مطابق وہ اپنے بچے کی بھلائی کے لئے انہیں بہت کچھ بنانا چاہتی ہے اور جس بات کو وہ پسند کرتی ہے وہی اس کے اندر دیکھنا چاہتی ہے اور پھر اسے پورا زور صرف کرنا پڑتا ہے اس بچے کو اپنی خواہش کے عین مطابق ڈھالنے کے لئے دنیاوی تعلیم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بچہ ڈاکٹر یا آج کل کے حساب سے بہترین تعلیم حاصل کرے۔ اب یہ بات تو کافی حد تک لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہے کہ ڈاکٹر بنانا ہی ضروری نہیں اگر بچے کا ذہن نہیں تیار ہے تو انہیں کچھ اور کرنے دینا چاہئے۔ ہر بچہ بڑی ڈگری لینے کے لیے نہیں پیدا ہوتا ہاں محنت کرنی ، آنا چاہئے اور احساس ذمہ داری ہونا چاہیے یہ ضروری باتیں ہیں جو ہر انسان کو کامیاب بناتی ہیں۔ بچے کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کے لئے بہت زور نہیں دینا چاہئے۔ وہ مائیں جو دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں یا دین پر چلنے والی ہوتی ہیں یہ ان کی قدرتی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بھی دین دار ہو ، بے شک بہت اچھی خواہش ہے، بچہ سات سال کا ہو تو اسے نماز سکھائو جب بچہ اور بڑا ہو جائے تو نماز کی پابندی کرائو۔ قرآن سکھائو۔ جو فرائض ہیں ان کی پابندی کی ہر ممکن عادت ڈالو جیسے روزہ نماز ، زکوٰة مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے دنیا میں ایک ایسی شخصیت بن کر ابھریں جن پر لوگ رشک کریں جن کی مثال دی جائے جو ہمارے لیے باعث فخر ہوں اس لیے ہم ان باتوں پر بھی زور دینے لگتے ہیں جو فرائض میں شامل نہیں ہیں۔ ہاں ایک ماں کی خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اس کا بچہ سکالر بنے عالم بنے، مفتی بنے، حافظ بنے اگر بچے کا ذہن اس بات کو قبول کرتا ہے توضرور بنے۔ یہ بات تو باعث فخر ہے ماں باپ کے لیے مگر ہر بچہ حافظ نہیں بن سکتا۔ اگر وہ نماز پڑھتا ہے، قرآن سیکھ چکا ہے اور حفظ کرنا نہیں چاہتا تو اسے زور نہ دے آپ کے بہت زیادہ کہنے سے اور آپ کی تمام کوششوں سے وہ حفظ تو کر لے گا مگر آگے کیا وہ اس کو قائم رکھ سکے گا۔ قرآن ہر وقت دھرانا پڑتا ہے بعض بچے تو اتنے پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ انہوں نے حفظ کیا ہے وہ حافظ صاحب کہلوانا پسند نہیں کرتے اور یہ والدین کی ضد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض دین دار مائیں چاہتی ہیں وہ اپنے بچے کو عالم بنائیں۔ مگر بچے کا رجحان اس طرف نہیں ہوتا ایک ایسا عالم بنا کر کیا فائدہ جو دنیا کو اپنے علم سے نفع نہ پہنچا سکے۔ میں نے ماں کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اکثر مائیں یہ اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ وہ بچے کو بہترین انسان بنائیں ۔ ہاں دین ضرور سکھائیں ، فرائض ضرور سکھائیں مگر اس کے آگے کی خواہشات پر اپنے بچے کی شخصیت کو خراب نہ کریں ۔پانچوں وقت نماز پڑھنے والا، جھوٹ نہ بولنے والا اللہ کو پسند ہے۔ اس عالم مفتی یا حافظ سے زیادہ جو اپنے حاصل کئے ہوئے علم پر عمل نہ کرتا ہو۔ اس لیے زور زبردستی نہ کریں۔ ہر وقت بچوں کی اصلاح کے پیچھے لگ جانا بھی صحیح نہیں ہے ،کبھی کبھی درگزر بھی کرنا ہوتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے، ان کو ہر وقت جانچنا پرکھنا اچھی بات نہیں ہے، ضروری نہیں ہر بچہ آپ کی خواہش کے عین مطابق پروان چڑھے۔ بے شک والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی اچھی تربیت کریں مگر کچھ والدین تربیت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد ہر حال میں انہیں دین و دنیا میں ایک تاج پہنائے،اس کے لئے وہ بے جا ضد بھی لے کر بیٹھ جاتے ہیں فرض اور خواہش میں فرق سمجھیں۔