بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ ہمارے گھر واقع محمدپور سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھی، یہ مشکل سے دو میل کی دوری پر دھان منڈی میں سونار بنگلہ کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھا. بچپن میں ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ اُس نہر میں تیراکی کیلئے جایا کرتے تھے جو ٹھیک اُن کے تین منزلہ جدید تعمیر کئے ہوے گھر کے سامنے سے بہتی تھی، ہمیں پتا تھا کہ اِس گھر کا مکین ایک انتہائی متنازع شخصیت شیخ مجیب الرحمن ہے جو جیل میں بند ہے. تاہم ہر لمحہ میری نگاہیں اُس گھر کی جانب مرکوز ہوجاتیں تھیں اور کچھ تلاش کرتیں رہتی تھیں کیونکہ ہم نے اُس گھر میں کبھی بھی کسی شخص کی موجودگی کو محسوس نہیں کیانہ ہی اُن کی بیگم اور نہ ہی اُن کے بیٹے بیٹیاں لیکن چند سال بعد ہی جب شیخ مجیب الرحمن فروری1969 ء میں اگر تلہ سازش کیس کے ختم ہونے کے بعد رہا ہوے تو اُسی گھر میں دوبارہ واپس آگئے اور اُس گھر کی چہل پہل ایسی آباد ہوئی جیسے وہ گھر نہیں ریلوے اسٹیشن ہو، خوش قسمتی سے مجھے بھی متعدد مرتبہ اُسی گھر میں شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کا شرف حاصل ہے، پہلی مرتبہ تو ہم انجمن مہاجرین مشرقی پاکستان کے وفد جس کی قیادت علامہ راغب حسن جو شہید شہروردی کے دست راست رہ چکے تھے ، کر رہے تھے اور میں بھی اُس وفد میں شامل تھا، اُس وقت شیخ مجیب الرحمن کا چہرہ سرخ گلاب کی مانند کھِلا ہوا تھا، مسکراہٹیں اور قہقہے اُس پر بکھر رہیں تھیں۔ گلہ و شکوہ ایک جانب تھیں،وہ محمد پور اور میر پور کی بستیاں جو مرحوم ایوب خان کی کاوشوں کی وجہ کر آباد کی ہوئیں تھیں ، اُس کے بھی مخالف تھے ، بقول اُن کے مہاجروں کی علیحدہ آباد کاری اُنکی بنگالی معاشرے میں ضم ہونے میں ایک سنگ راہ ہے، اِسکے باوجود بھی شیخ مجیب الرحمن انتہائی خوش اخلاقی سے ملے ، بلکہ وہ میرے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ میرے جیسے نوجوان بنگالی و غیر بنگالی میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے ضامن ہونگے، اُنہوں نے وفد کو دعوت دی کہ وہ عوامی لیگ کے سیکریٹریٹ میں تشریف لائے تاکہ وہ دوسرے رہنماؤں سے تعارف کراسکیں،گفت وشنید کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہا میں اِس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا، کیونکہ میں مع اپنی فیملی کے کراچی چلا آیا ۔
شیخ مجیب الرحمن کا وہی گھر اپنے سینے میں ایک خونین ڈرامہ کو معمور کیا ہوا ہے یہی گھر ہے جہاں نوجوان فوجی افسران نے 15 اگست 1975 کی صبح شب خون مارا تھا اور ماسوائے اُن کی دو بیٹیاں جو تفریح کی غرض سے جرمنی گئیں ہو ئیں تھیںاُنکے خاندان کے تمام افراد خود کار رائفل اور اسٹین گن کی گولیوں سے بھون دیئے گئے تھے ، مجیب الرحمن کے خاندان کے 20 افراد اور وقفہ وقفہ کے بعد عوامی لیگ کے تمام سرکردہ رہنما اور اُن کے اہل و عیال جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے تھے۔ سید فاروق رحمن جو بنگلہ دیش کی بنگال رجمنٹ کے سیکنڈ اِن کمانڈ تھے اور اُن کے قریبی ساتھی خندوکار عبدالرشید یہ دونوں خونی انقلاب کے ماسٹر مائنڈز تھے،اِن دونوں کا مطمع نظر شیخ مجیب الرحمن کو صدارت کے عہدے سے معزول کرکے خنددوکار مشتاق احمد جو شیخ مجیب کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر تھے اُنہیں ملک کا سربراہ بنانا تھا، انقلابیوں کی شیخ مجیب سے ناراضگی کی وجہ بنگلہ دیش کا بھارت کی ایک کٹھ پتلی ریاست بننا، اپنے خاندان کی سلطنت قائم کرنا شامل تھااور ساتھ ہی ساتھ بنگلہ دیش آرمی کی متوازی فوج جاتیا راکھی باہنی کا قیام جو شیخ مجیب الرحمن کی فوج سمجھی جانے لگی تھی اور جو ریگولر فوج سے زیادہ مراعات و نوازشات سے بہرہ ور کی گئیں تھیں۔
بنگلہ دیش آرمی کے نوجوان افسران کی اشتعال میں آنے کی دوسری وجوہات میں عوامی لیگ کے غنڈوں کی مجرمانہ سرگرمیاں ، ریپ اور بینک میں ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں اُنکا ملوث ہونا شامل تھا، خصوصی طور پر ٹونگی عوامی لیگ کے نوجوان و نگ کا صدر مزمل جس نے ایک نو بیاہتا جوڑے کی گاڑی کو اغوا کرکے ڈرائیور اور شوہر کو قتل کردیا تھا بعد ازاں اُس کی بیوی کو عوامی لیگ کے نوجوان کارکنوں نے گینگ ریپ کرنے کے بعد ہلاک کردیا تھا تاہم مزمل کی گرفتاری فوج کے ایک اسکواڈن لیڈر ناصر کی مداخلت کی وجہ کر عمل میں آئی تھی، لیکن بے سود ثابت ہوئی. شیخ مجیب الرحمن نے فورا”مزمل کی رہائی کا حکم صادر فرمایا تھا اور وہ اُسی دِن جیل سے رہا ہوگیا تھا۔شیخ مجیب الرحمن کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش نوجوان فوجی افسروں کے مابین سالوں سال سے پک رہی تھی . افسران شادی کی تقریب ، کھیل کے میدان میں اِس پر غورو خوض کرتے تھے تاہم 14 اگست 1975 ء کے دِن ایک میٹنگ میں اُن افسران نے انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آئندہ دِن دو بٹالین فوج کے چار گروپس تشکیل دی گئیں، آرمرڈ ڈویژن کے میجر ہُدا کو شیخ مجیب الرحمن کے گھر پر حملہ کرنے کے فرائض دیئے گئے، اُنکی فوج کے پہنچتے ہی گھر کی نگرانی کرنے والی فوج کی پلاٹون نے ہتھیار ڈال دیا تھا تاہم شیخ کمال مزاحمت کرتے ہوے گھر کے دروازے پر آئے تھے لیکن فوج نے اُنہیں بھی گولیوں سے بھون ڈالا، انقلابی فوج کے افسران نے شیخ مجیب الرحمن کو حراست میں لے کر اُنہیں استعفی دینے پر مجبور کیا، تاہم اُنہیں موقع دیا گیا کہ وہ سوچ لیں.شیخ مجیب الرحمن نے چیف آف ملٹری انٹیلی جنس کرنل جمیل الدین احمد کو فون کیا اور وہ جلد ہی پہنچ گئے اور فوج کو بیرک میں واپس جانے کا حکم دیا لیکن فوج نے اُن کی بھی نہ سنی بلکہ اُنہیں بھی ہلاک کردیا، شیخ مجیب الرحمن نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا ، جس پر اُنہیں بھی گولی مار دی گئی،وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑے، فوجی افسران نے اپنے بوٹ سے اُنکے منہ کو یہ دیکھنے کیلئے سیدھا کیا کہ کہیں وہ زندہ تو نہیں ہیں اور اِسی کے ساتھ بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے، وقت کی مسافت کے ساتھ یہ بات منظر عام پر آرہی ہے کہ بے شمار سینئر فوجی افسران کو اِس انقلاب کا اچھی طرح علم تھا، حتی کہ سی آئی اے بھی اِس سے آگاہ تھی۔