دوستوں کی محفل !!!

0
124
شبیر گُل

اللہ تبارک نے انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ دُکھ ،درد بانٹے ، پیار محبت سے رہنے اور چاہت و الفت کے لئے پیدا کیا ہے جس میں یہ خصوصیات ہوں اسے اچھا انسان کہا جاتا ہے۔ ایک شخص اپنے دوستوں کی محفل میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس نے آنا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس محفل کے ایک بزرگ نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر گئے۔ وہاں انہوں نے اس شخص کو گھر میں تنہا، ایک آتشدان کے سامنے بیٹھا پایا، جہاں روشن آگ جل رہی تھی، ماحول کافی آرام دہ تھا۔ اس شخص نے مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے اور آتشدان کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد، مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر، جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ چمک رہا تھا، اس کو چمٹے کے ساتھ اٹھایا اور ایک طرف الگ رکھ دیا۔ میزبان خاموش تھا مگر ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور گرم تھا اب ایک کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے، مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: “آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کے لئے بہت شکریہ، میں جلد ہی آپ کی محفل میں واپس آں گا”۔ اکثر محفل کیوں بجھ جاتی ہے؟؟بہت آسان: “کیونکہ محفل کا ہر رکن دوسروں سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ کے ارکان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ رہے”۔ گروپ بھی ایک کنبہ کی طرح ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں، جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگاہ رہنے کے لئے، خیالات کا تبادلہ کرنے، یا محض یہ جاننے کے لئے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں اور سب کو دعاں میں یاد رکھیں۔ عہدے اور منصب سب آنی جانی چیزیں ہیں۔ دوستی اور کردار کو زندہ رکھنا انسانیت کی علامت ہے۔ اپنے گرد تنگ نظری اور خودسری کاحصار انسان کو تنہا کر دیتا ہے۔ تنہائی اسی کوئلے کی مانند ہے جو محبت کے شعلوں سے الگ رہ کر روشنی اور تماذت کھو دیتا ہے۔ لہٰذا اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور اللہ کی بخشی گئی سب سے خوبصورت چیز، “دوستی” کو ہمیشہ قائم و دائم رکہیں۔ میرے مرحوم و مغفور ابا جان فرمایا کرتے تھے دوست کے معنی دو ،ست ہیں۔ ست پنجابی میں سات چیزوں کے نچوڑ یا پھر کسی بھی چیز کو پکانے کے بعد 1/4حصہ رہ جائے -اسے ست کہتے ہیں یعنی سچی دوستی کے معنی چار اور چار آٹھ لوگ ہیں۔
آجکل نہ وہ دوستیاں رھی نہ وہ رشتے رہے۔ انسان ترقی کی منازل طے کرتے کرتے رشتوں کا احترام ، تقدس اور اہمیت کھو چکا ہے۔ خاندانی نظام میں دڑاڑیں آچکی ہیں۔ بغیر غرض دوستیاں اور محبتیں ناپید ھو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اخلاق باختگی کی انتہا کر دی ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔
ہم مغربی تہزیب کی مرعوبیت میں اپنا اصل بھول چکے ہیں۔ جس تہذیب کی تباہی نے خاندانی کلچر کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بچے کے خلاف مقدمہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھر میں ایک کتا پالا ہوا ہے، روزانہ چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے۔ اسے نہلاتا ہے، اس کی ضروریات پوری کرتا ہے، اسے اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے، روزانہ سیر کرواتا ہے اور کھلاتا پلاتا بھی خوب ہے اور میں بھی اسی گھر میں رہتی ہوں، لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا۔ اس لئے عدالت کو چاہیئے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کا پاپند کرے۔ جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمے لڑنے کی تیاری کر لی۔ ماں بیٹے نے وکیل کر لیا۔ دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے جو فیصلہ سنایا ملاحظہ کیجیئے ۔ “عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں 5 منٹ کے لئے بھی آنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ملک کا قانون ہے جب اولاد 18 سال کی ہو جائے تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے یا بالکل علیحدہ ہو جائیں۔ رہی بات کتے کی، تو کتے کے حقوق لازم ہیں، جنہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے تو وہ اسے بوڑھوں کے گھر لے جائیں گے اور وہاں اس کی خبرگیری کریں گے۔
یہ وہ متعفن اقدار ہیں جن کے پیچھے ہمارے بہت سے لوگ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ یقین کریں ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت جیسی اعلی روایات ہماری اسی مغربی تقلید کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہیں۔ اسلام میں دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ احسان کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔ اس لئے اگر ہم اسلام کے دامن میں پناہ نہیں لیتے تو بہت جلد ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہی ہو گا جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھ کر ان کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم پردیس میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانیت پر کڑتے ہیں۔ ضیاالحق کے علاوہ جتنے بھی حکمران آئے ہیں، مغرب کی خوشنودی کے لئے سیکولرازم کی لائن اپناتے کی کوشش کرتے ہیں۔ ھمارے ٹی وی پر vulgarity اور خاندانی نظام کے خلاف ڈراموں نے گھروں کے ماحول کو تباہ کردیا ہے۔ خاندانی نظام کے خلاف بل کو پاس کرنا دراصل ، پاکستان نو معاشرتی طور پر کھوکھلا کرنا ہے۔ پی ٹی میں بیٹھے منسٹرز ، مشرف دور کی باقیات ہیں۔ جو ملک میں فحاشی اور عریانیت کا دور لانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here