ہم اور جشن آمد رسولۖ!!!

0
61
مجیب ایس لودھی

حضور اکرم ۖ سے ہماری عقیدت ہی ہمارے مذہب کی بنیاد ہے، اس کے بغیر ہمارا دین اسلام کبھی مکمل نہیں ہو سکتا ہے، 12ربیع الاول کی مناسبت سے جلوس کا انعقاد میری اولین ترجیح رہا ہے ، جس کا سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ ایک روز میں اور میرا دوست شکیل شیخ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے کہ ہمارے پاس سے ہندوئوں کا ایک جلوس گزرا جنھوں نے بت اور مورتیاں اٹھا رکھے تھے، جلوس کے گزرتے ہی میں اور میرا دوست ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگ گئے اور کہا کہ کیا تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں ، بولا بالکل ایسے ہی ہے ، اس دن سے ہم نے 12ربیع الاول کی مناسبت سے مسلسل ہر سال جلوس کا انعقاد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ رواں ماہ بھی ہم نے 12ربیع الاول کے سلسلے میں جلوس کا انعقاد کیا جس میں پاکستان سمیت مختلف ممالک سے علمائے اکرام اور شخصیات تشریف لائیں ، لیکن صد افسوس کہ پوری ٹیکسٹ میسج کی مہم، دعوت ناموں کے باوجود امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کی اس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی، اتوار کو جلوس کے دوران ہلکی بارش اور ٹھنڈ بھی تھی لیکن کچھ بزرگ حضرات پہلے روز سے آج تک ہمارے جلوس میں شرکت کرتے آ رہے ہیں ان کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، ان کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں، حضور اکرم ۖ سے عقیدت ہی ہماری دنیاوی اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے، ہم نے 12ربیع الاول کا پہلا جلوس برفباری کے دوران نکالا تھااور اس وقت سخت سردی تھی ، بات جذبہ ایمانی کی ہے، بارش، سردی اور دیگر چھوٹی چھوٹی مشکلات جذبہ ایمانی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ ہمارے کچھ علمائے اکرام بھی اس جلوس میں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے ہیں جن میں مفتی قمر ، تصور گیلانی قابل زکر ہیں، جبکہ جلوس کے میرے پارٹنر شکیل شیخ ایک جذبہ ایمانی سے سرشار شخصیت ہیںجوکہ جلوس کے انعقاد کے موقع پر ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور شاید اسی کی ہی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مقدس مقام بلاتا ہے، مجھے بھی مدینہ شریف جانے کا شرف ملا ہے، اللہ تعالیٰ ہماری نیکیوں کے بدلے روضہ رسول ۖ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ 12ربیع الاول کے جلوس میں پاکستانی کمیونٹی کی عدم دلچسپی اور عدم شرکت سے بہت افسوس ہوا ، ہم کیسے مسلمان ہیں جوکہ سیاسی فنڈریزنگ، میوزیکل نائٹس، شاعری کی محفلوں، دیگر تفریحی پروگراموں کے لیے تو اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال سکتے ہیں لیکن جس ہستی کے گرد ہمارے ایمان کی بنیادہے ، ہم اس کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔
جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگرابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اْس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے، صلوة و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اْمت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here