فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
60

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! رمضان المبارک کا مہینہ اہل اسلام کے لئے بہت بڑی نعمت ہے اس کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔ سب مسلمانوں کو چاہئے کہ پورے رمضان المبارک کے روزے رکھیں ،نماز تراویح، بیس رکعت کے ساتھ ادا کریں، کوشش کریں نماز تراویح میں قرآن پاک کی تلاوت کی تکمیل ہو۔ سحری افطاری کی رونقوں سے محظوظ ہوں۔ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں کیونکہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر اور نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوجاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمعہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔(پارہ نمبر٢سورہ بقرہ آیت نمبر١٨٣) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں پر عشاء سے لے کر دوسری رات کے آنے تک روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ابتداء اسلام میں بھی یہی دستور تھا۔ اہل علم کی ایک جماعت کا قول ہے کہ نصاری پر اسی طرح روزہ فرض کیا گیا تھا۔ کبھی تو روزوں کا مہینہ شدید گرمی اور کبھی سخت سردی میں آجاتا جس کی وجہ سے انہیں سفر اور اپنے کاروبار میں سخت دشواری پیش آتی۔ چنانچہ ان کے بڑے اکٹھے ہوئے اور باہم مل کر یہ طے کیا گیا کہ روزے سردیوں اور گرمیوں کے علاوہ سال کے کسی اور موسم میں رکھے جائیں چنانچہ انہوں نے روزوں کے لئے بہار کا موسم مقرر کیا اور اپنے اس ہیر پھیر کے کفارہ کے طور پر دس روزوں کا اضافہ کردیاپھر ان کا ایک بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ اس نے نذر مانی کہ اگر وہ اس بیماری سے تندرست ہوگیا تو ایک ہفتہ کے روزوں کا اضافہ کرے گا چنانچہ جونہی وہ تندرست ہوا تو اس نے لوگوں کے لئے ایک ہفتہ کے روزے بڑھا دیئے جب یہ بادشاہ مرا اور دوسرا بادشاہ ان کا حکمران بنا تو اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ تم پچاس روزے پورے کرو۔ پھر انہیں دو موتیں پہنچیں اور وہ جانوروں کی موت تھی تو اس بادشاہ نے کہا کہ اپنے روزوں کو زیادہ کرو چنانچہ دس روزے ان روزوں سے پہلے اور دس روزے بعد میں بڑھا دیئے گئے نیز کہا گیا کہ کوئی امت ایسی ن ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر روزے فرض کئے تھے مگر وہ اس سے پھر گئے۔ بغوی کا قول ہے کہ رمضان مہینے کا نام ہے اور یہ رَقضاء سے مشتق ہے جس کے معنیٰ گرم پتھر کے ہیں۔ کیونکہ وہ شدید گرمی کے موسم میں روزے رکھا کرتے تھے۔ عرب قبیلوں نے جب مہینوں کے نام رکھنا چاہے تو ان ایام میں یہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا چنانچہ اس کانام رمضان رکھا گیا کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس ماہ کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ یہ ماہ مقدس گناہوں کو جلا دیتا ہے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض کئے گئے یہ دین کا ایک اہم رکن ہے۔ اس کے وجود کے منکر کی تکفیر کی جائے گی۔ احادیث مقدسہ میں اس ماہ کے بہت سے فضائل منقول ہیں۔ حضورۖ نے فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے تو جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پورا ماہ رمضان ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور اللہ تعالیٰ پکارنے والے کو حکم دیتا ہے جو ندا کرتا ہے کہ اے نیکی کے طلب کرنے والے! متوجہ ہو اور اے گناہوں کے طلبگار رُک جا پھر وہ کہتا ہے: کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے جسے بخش دیا جائے؟ کوئی سائل ہے جسے عطا کیا جائے؟ کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ قبول کی جائے؟ اور صبح ہونے تک یہ ہذا ہوتی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیدالفطر کی رات دس لاکھ ایسے بندوں کو بخشتا ہے جن پر عذاب واجب ہوچکا ہوتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورۖ نے ہمیں شعبان کے آخری دن خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہے جس میں لیلة القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور اس کی راتوں میں عبادت کو سنت قرار دیا ہے جو شخص اس ماہ میں کسی نیکی سے قرب حاصل کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں فرض کی ادائیگی کا ثواب ملتا ہے اور جس نے فرض ادا کیا وہ ایسے ہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں ستر فرائض ادا کئے یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے یہ بھائی چارے اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں مئومن کا رزق زیادہ ہوتا ہے جس شخص نے اس مہینے میں روزہ دار کا روزہ افطار کرایا اسے غلام آزاد کرنے کا ثواث ملتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ہم نے عرض کیا یارسول اللہ(ۖ) ہم میں سے ہر شخص ایسی چیز نہیں پاتا جس سے وہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائے۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب ہر اس شخص کو عطا کرتا ہے جو کسی روزہ دار کا روزہ دودھ کے گھونٹ یا پانی کے گھونٹ یا کھجور سے افطار کراتا ہے اور جس نے کسی روزہ والا کو سیر کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش ہوگی اور اللہ تعالیٰ اسے میرے مومن سے ایسا سیراب کرے گا کہ وہ اس کے بعد کسی وقت بھی پیاسا نہ ہوگا اور اسے بھی روزہ دار کے برابر اجر ملے گا لیکن روزہ دار کے اجر سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت، درمیان مغفرت اور آخر جہنم سے آزادی ہے جس نے اس مہینہ میں اپنے خادم یعنی ملاازم سے تخضیف کی اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزادی دے گا اس میں چار کام بہت زیادہ کرو۔ دو کاموں سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے۔ جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کیلئے رمضان کی آمد مبارک فرمائے اور تمام اھل اسلام کو اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here