اتفاق رائے اور چھبیسویں ترمیم!!!

0
12

آئین میں چھبیسویں ترمیم کے لئے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے ۔ممکن ہے یہ سطور شائع ہونے تک پارلیمنٹ سے ترمیم کی منظوری کا معاملہ اپنے انجام تک پہنچ چکا ہو ۔آئینی ترمیم کے لئے پی ٹی آئی سے اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد مسودے کے حوالے سے متضاد اطلاعات آتی رہی ہیں۔مختلف جماعتوں کے ساتھ مختلف مسودے پر مذاکرات کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اراکین پر دبا و کی شکایت بھی کی۔آئینی ترمیم جس جلد بازی، اتفاق رائے پیدا کئے بنا کرنے کے اقدامات رپورٹس ہوئے ہیں ،اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ مستقبل میں اس سارے عمل کی ساکھ پر سوال لگا دئے گئے ہیں ۔یہ سوال عوامی مینڈیٹ ، پارلیمنٹ کی بالادستی، اپوزیش سے بات چیت اور جمہوری اقدار کے بارے میں سنجیدگی سے غور کی دعوت دے رہے ہیں۔اتوار کی سہ پہر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ترمیم کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ ایک ماہ سے جاری مذاکرات پر حتمی پوزیشن بتائی۔ بیرسٹر گوہر نے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات ، ان کی ہدایات ، اپنے اراکین اسمبلی و کارکنوں پر تشدد سمیت حکومت کے رویئے کو غیر سنجیدہ قرار دیا اور ترمیم پر رائے شماری کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو درپیش سیاسی مشکلات میں بیرسٹر گوہر کی رائے کا احترام کرنے اور ووٹنگ میں شریک ہونے کا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آئینی مسودے پر اپوزیشن کے تحفظات پر کام کیا۔مولانا کے بقول ،انہوں نے آئینی ترمیم کے کالے سانپ کا زہر نکال دیا ہے۔ اس سے قبل جے یو آئی ف کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے ڈرانے دھمکانے اور اغوا کے ذریعے متنازع 26ویں آئینی ترمیم منظور کی تو ملک کا ہر گوشہ لوگوں سے بھر جائے گا۔حکومت بات چیت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات کرتی رہی تو دوسری طرف وہ اپوزیشن کے قانون سازوں، خواتین سینیٹرز اور ان کے رشتہ داروں کو ہسپتال کے بستروں سے اغوا کر رہی ہے یہ جمہوریت ہے یا فاشزم۔مبصرین کے مطابق چھبیسیویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے، ترمیم کے وقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔یہ ترمیم اس وقت لائی گئی جب چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ بالکل قریب ہے۔ یہ کہے بغیر کہ کسی بھی عام یا آئینی قانون سازی کو فرد کے لیے مخصوص نہیں کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی قانون جو انفرادی طور پر بنایا جائے، سوائے خواتین اور بچوں کے تحفظ کے، وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہو گا۔ موجودہ ترمیم چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ممکنہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کے طور پر تعینات ہونے کی راہ ہموار کرتی ہے کیونکہ ریٹائرمنٹ کی عمر اڑسٹھ سال مقرر کی گئی ہے۔ دوئم، متعلقہ مسودے میں بیان کردہ ایف سی سی کے ججوں کی تقرری کا عمل عدلیہ کی آزادی سے متعلق خدشات کو بڑھاتا ہے۔ فیڈرل کانسٹی ٹیوشن کورٹس پریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار (حکومتوں کے درمیان تنازعات، براہ راست درخواستوں، یا بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق اپنے سو موٹو)کی جگہ لے لیتا ہے اور ایسے تمام معاملات اب ایف سی سی کو منتقل کیے جائیں گے۔ اپوزیشن ماہرین کا خیال ہے کہ نئی آئینی ترمیم کا مسودہ ہمارے آئین کی ایک نمایاں خصوصیت کو ختم کر دیتا ہے یعنی عدلیہ کی ایگزیکٹو اور مقننہ سے آزادی۔اب عدلیہ ایگزیکٹو کے ماتحت آ سکتی ہے۔ مذکورہ مسودے میں ٹرائیکوٹومی/اختیارات کی علیحدگی کے تصور پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ترمیم کاخاکہ کہتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں کسی بھی آئینی ترمیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بشمول وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ، یا ہائی کورٹ تاہم محمود خان اچکزئی کیس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ وفاقیت، اسلامی دفعات، پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی آئین کی نمایاں خصوصیات ہیں اور انہیں آئین سے تبدیل، ترمیم یا ہٹایا نہیں جا سکتا۔ مزید برآں، مشہور ڈسٹرکٹ بار کیس میں اقلیتوں کا موقف تھا کہ اگر آئینی ترمیم آئین کے نمایاں خدوخال کے خلاف ہو تو اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔تیسرا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ مسودہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام حقیقی اختیارات کو ختم کر دیتا ہے۔ سپریم کورٹ اپنے اصل اور مشاورتی دائرہ اختیار سے خالی ہے اور صرف اپیل کے دائرہ اختیار کے ذریعے ہی مقدمات کی سماعت کر سکتی ہے۔ حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے، سپریم کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس میں رٹ پٹیشنز سے پیدا ہونے والی اپیلوں پر اپنے دائرہ اختیار کا استعمال بھی نہیں کر سکتی۔ مزید یہ کہ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ پر لازم ہوں گے اگر سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے درمیان کوئی دائرہ اختیارکا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ خاص طور پر، تمام ایگزیکٹو اور عدالتی حکام اب آئینی عدالت کی مدد سے کام کریں گے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ایگزیکٹو اور جوڈیشل حکام کو آئینی طور پر سپریم کورٹ کے احکامات کو نافذ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔کیا وہ فیصلے کو نافذ کرنے میں صوابدید استعمال کر سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کے حکم کی کیا حرمت ہے؟ آئینی ترمیم کا معاملہ کسی فرد واحد، جماعت یا گروہ کی بجائے ریاست کے مفاد کے تحت ہونا چاہئے۔ریاست کا مفاد تقسیم اختیارات ، پارلیمانی جمہوریت اور آئین کی بالادستی میں پنہاں ہے جسے سیاسی اتفاق رائے سے تقویت دی جاتی ہے۔یہ اتفاق رائے موجود نہ ہو تو آئینی ترمیم متنازع کہلاتی اور ریاست کے لئے نئے بحرانوں کا باعث بن سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here