کروڑ پتی کون ؟

0
55
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ہر چند مجھے احساس ہے قارئین میرے روحانی کالمز پڑھنا چاہتے ہیں وہ وظائف و اعمال کی بھی کھوج میں رہتے ہیں جبکہ بنیادی فلکیاتی علوم کا سلسلہ جو ایک طویل اقساط پر مشتمل تھا وہ بھی قارئین کی دلچسپی سمیٹے تھا لیکن محترم قارئین جو یہ انداز بیاں بدلا ہے اس کی بھی وجوہات ہیں اب میں زندگی کی زندہ مثالوں اور سچے واقعات کو سہارا لیکر کوشش کرتا ہوں انسانیت کو جگایا جائے تربیت کی جائے لوگوں کو اخلاقیات کا درس دیا جائے کیونکہ اس میں ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں اور وقت ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ،زندگی آسان بھی ہے اور مشکل بھی کہنے والوں نے کہا کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ خوش ہے اسکے لیئے آسان جسکے پاس نہیں اس کیلئے مشکل بات تو کچھ دم رکھتی ہے لیکن سو فیصد اس سے اتفاق نہیں، بہت سے پیسے والوں کو انتہائی مشکل میں صدمات میں دیکھا جبکہ اوسط درجے درمیانے طبقے و غریب کو بھی خوش دیکھا، مطمئن دیکھا ،کیوں تو اس کا جواب ہے جناب جو بھی دنیا میں کامیاب و مطمئن ہونا چاہتا ہے وہ زندگی کے اصول بنائے ان پر عمل کرے اور یہ بزرگان کی صحبت سے ہوگا یہ نسبت سے ممکن ہوگا، اس کے بغیر مشکل ہے آج کی مثال پڑوسی ملک بھارت سے محترم نیرج سکسینہ صاحب کی ہے اب آپ پہلے انکی کہانی پڑھیئے پھر اس پر روشنی ڈالتے ہیں ۔جو مندرجہ زیل ہے یہ کہانی منقول ہے اور انٹرنیٹ پر آپ کو مل جائیگی ۔
امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی کے ایک ایپی سوڈ میں، نیرج سکسینہ نامی شخصیت نے حصہ لیاجنہوں نے تیز ترین فنگر رائونڈ میں پہلا مقام حاصل کیا، اور ہاٹ سیٹ تک پہنچ گئے۔ عموما لوگ امیتابھ کے سامنے بیٹھ کر بہت جذباتی ہو جاتے ہیں وہ ان کو چھونا چاہتے ہیں گلے لگانا چاہتے ہیں لیکن وہ وہاں سکون سے بیٹھے رہے، کوئی چیخ نہیں، کوئی رقص نہیں، آنسو نہیں، امیتابھ کو گلے نہیں لگایا پھر جب تعارف ہوا تو معلوم ہوا وہ ایک سائنسدان ہیں، پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں، اور کولکتہ کی ایک یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں۔ انہیں ڈاکٹر اے پی جے عبدلکلام کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔نیرج نے سامعین کے پول کا استعمال کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ گیم کا آغاز کیا۔ اس نے ہر سوال کا آسانی سے جواب دیا، اور اس کی ذہانت حیران کن تھی۔ اس نے وقفے سے پہلے 3.2 لاکھ روپے اور مساوی بونس جیتا۔وقفے کے بعد، امیتابھ نے اگلا سوال پیش کرنا شروع کیا: “ٹھیک ہے، ڈاکٹر، اب گیارہواں سوال آ رہا ہے یہ ہے لیکن تب ہی، نیرج بولا، “سر، میں چھوڑنا چاہوں گا۔امیتابھ حیران رہ گئے، ایک مدمقابل اتنا اچھا کھیل رہا ہے، جس میں ابھی تین لائف لائنیں باقی ہیں اور اپنی قابلیت سے وہ 1 کروڑ روپے آسانی سے جیت سکتے ہیں، وہ چھوڑنا چاہتا ہے؟
نیرج نے سکون سے جواب دیا، یہاں دوسرے مقابلہ کرنے والے انتظار کر رہے ہیں، اور وہ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں، وہ بھی ایک موقع کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ، میں پہلے ہی ایک اچھی رقم جیت چکا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاس جو ہے وہ کافی ہے، مجھے مزید ضرورت نہیں ہے۔امیتابھ تو ایک دم گنگ ہو گئے۔ پورا اسٹوڈیو ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ پہلے تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا، اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی ایسے بھی سوچ سکتا ہے اور پھر سب نے کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں بجا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔ امیتابھ نے کہا، آج آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ اتنے شائستہ شخص سے ملنا نایاب ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے۔سچ میں، اتنا بڑا موقع ہونے کے باوجود، نیرج کا پیچھے ہٹنے اور دوسروں کو کھیلنے کی اجازت دینے کا فیصلہ، جو اس کے پاس تھا ،اس پر مطمئن رہتے ہوئے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے سلام کیا۔آج، لوگ اکثر پیسے، طاقت کا لامتناہی پیچھا کرتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی کما لیں، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ لالچ کبھی کم نہیں ہوتا۔ اس تعاقب میں لوگ اپنا خاندانی وقت، نیند، سکون، محبت اور دوستیاں کھو دیتے ہیں لیکن ایسے وقتوں میں، ڈاکٹر نیرج سکسینہ جیسے لوگ ہمیں قیمتی سبق یاد دلاتے ہیں۔ اس دور میں کسی ایسے شخص سے ملنا جو کم پر مطمئن ہو، ایک نادر اور قیمتی نظارہ ہے۔نیرج کے جانے کے بعد ایک نوجوان لڑکی ہاٹ سیٹ پر آئی۔ اس نے اپنی کہانی شیئر کی: “میرے والد نے ہمیں اس لیے نکال دیا کہ ہم تین بیٹیاں ہیں۔ اب ہم ایک آشرم میں رہتے ہیں،مجھے احساس ہوا کہ اگر نیرج نہ چھوڑتا تو اس لڑکی کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کی قربانی نے اسے کچھ پیسہ کمانے کا موقع فراہم کیا۔ آج کی دنیا میں، لوگ اپنی وراثت سے ایک پیسہ بھی الگ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن یہ ایک غیر معمولی معاملہ تھا۔جب آپ کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کب رکنا ہے اور دوسروں کو موقع دینا ہے۔ خود غرضی کو چھوڑنا اجتماعی خوشی کا باعث بنتا ہے۔
قارئین کرام کہانی آپ نے پڑھی اُمید ہے اس میں موجود سبق آپ کو پسند آیا ہوگا نیرج صاحب نہ صرف ایک قابل سائنسدان ہیں اس کے ساتھ ہی وہ بہت بڑے عظیم انسان بھی ہیں جن کو اس بات کا اندازہ ہے جس مقابلے میں وہ شریک ہوئے وہاں ان کا کام اب ختم وہ یہ چانس دوسروں کو دینا چاہتے ہیں نہ انکی طبعیت میں لالچ سوار ہوا نہ انہوں نے تشہیر کا سہارا لیا بلکہ اس سیٹ کو کسی دوسرے لائن میں لگے شخص کیلئے خود چھوڑ دیا !! بس اس سے ظاہر ہوا دنیا میں ترقی پانے کیلئے نیرج صاحب جیسے لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو ہر ملک و شھر اور طول و عرض میں پائے جاتے ہیں ۔ آج اگر ہماری کرکٹ ٹیم ہاکی کی طرح زوال کا شکار ہے تو نالائقوں اور پرچی والوں کی سفارشیں یہ سب کروا رہی ہیں جو کچھ نہ کرکے بھی اعلی مشاہرے پاتے ہیں اور میدان میں جاکر ایک اور ناکامی سمیٹ ڈھٹاء کے ساتھ جمے رہتے ہیں یہی فرق ہے ہمارے یہاں اور انکے یہاں بدعنوانی پر سطح پر رائج ہے اور اس کو برا نہیں سمجھا جاتا آج بہترین نتائج دینے والے کھلاڑی باہر ہیں جبکہ سفارشی لوگوں نے اس کھیل کو تباہ کرنے میں کوء کسر نہیں چھوڑی امید ہے پاکستان میں میرٹ کا بول بالا ہو اور سیاسی مداخلت مولویوں کا کرکٹ پر اثر و نفوذ ختم ہو کہ کرکٹ اپنی اصل شکل میں بحال ہوسکے اور ہم پھر سے کامیابی کا منہ دیکھ سکیں اس کے ساتھ ہی اجازت دیں ملتے ہیں اگلے ہفتے کسی نئے موضوع کے ساتھ!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here