جی تو چاہتا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے پاکستانی ٹیم، کوچز اور انتظامیہ کے کردار اور معیار و اسٹریٹجی کے بخیئے اُدھیڑے جائیں لیکن ”مرے کو مارے شاہ مدار” کے مصداق اس موضوع پر اس قدر لعن طعن اور ملامت کے ڈونگے برس چکے ہیں کہ مزید کچھ کہنا وقت اور کالم کا زیاں ہی ہوگا کہ گزشتہ نو برسوں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی ہے، بات کرکٹ کی ہی نہیں، ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی، اسکواش، باکسنگ، ٹریک اور ایتھلیٹکس کے مقابلوں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھتا تھا لیکن اب سب کچھ معدوم ہو چکا ہے، اب ارشد ندیم کی نیزہ بازی میں کامیابی کے سواء کچھ بھی ہماری خوشیوں کے پٹارے میں باقی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال محض کھیلوں کے حوالے سے ہی ہے، ہماری تواضع یہ ہے کہ محرومی، شکست اور تباہی ہر شعبہ حیات میں بدرجہ اتم موجود ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان بنیادی اصولوں اور تقاضوں سے ہم دُور ہو چکے ہیں جو ایک معاشرے کی کامیابی و ترقی اور میرٹ کی بنیاد ہیں۔ سیادت، قیادت، راستی و حقوق کے حوالے سے اغراض و مفادات کا طوفان اور اپنے فرائض سے اغماز اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ دین و مذہب کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس طوفان بدتمیزی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں علم و آگہی کے بغیر تبصرہ، تجزیہ اور دعویٰ کرنا محض ایک معمول بن چکا ہے اور کسی تہذیب و توقیر کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔ تکذیب اور تحقیر کو اپنی کامیابی سمجھ کر اپنے استدلال کا ابلاغ کیا جانا ایک معمول ہے خواہ متعلقہ فرد کا اس موضوع یا معاملے سے تعلق نہ بھی ہو۔ اس حقیقت کو ہر صاحب ایمان اچھی طرح جانتا ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں دین مبین کے حوالے سے فرقے اور نفاق کی تقسیم اور تضادات و توضیحات کی بھرمار ہوگی اور ایسے منافقین سامنے آئیں گے جو اپنے مطمع نظر سے دین کی روح اور اصولوں سے تجاوز کر کے امت کو بھٹکانے کا سبب بنیں گے۔ ایک روایت کے مطابق امت مسلمہ 72 فرقوں میں بٹی ہوگی، نتیجہ زوال کی صورت میں سامنے آئے گا، ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے سبب جہاں سیاسی، معاشرتی و تہذیتی انتشار و انحطاط سامنے آیا ہے وہیں دین و مذہب کے حوالے سے نئے نئے مبلغین و دعویدار سامنے آئے ہیں جو دین مبین کی تعلیمات کی نہ صرف اپنے مقاصد اور امت میں انتشار و افتراق پر مبنی توضیح و تشریح کرتے ہیں بلکہ سیاسی و مشاورتی حوالوں سے ہیجان خیزی پیدا کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے عمل پیرا ہیں۔
ایسے ہی لوگوں میں ایک نام نہاد خود ساختہ انجینئر محمد علی مرزا ہے جو خود کو حنفی اور دیو بندی کہتا ہے لیکن نہ اہلبیت کو تسلیم کرتا ہے نہ صحابہ کرام کی عظمت کو مانتا ہے اور دین کے حقائق و احادیث کے ناطے ایسی تشریح و توضیحات کرتا رہا ہے جو صرف تضادات پر مبنی ہوں، یہی نہیں علمائے کرام کی تکذیب و تحقیر اس کا وطیرہ ہے۔ ہمیں تو شبہ ہے کہ یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی کا مطیع نہ ہو جس نے خود کو آخری نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا یا پھر یہ محمدعلی مرزا اسلام دشمن قوتوں کا ایجنٹ ہے جسے امت مسلمہ میں انتشار و تقسیم کیلئے پلانٹ کیا گیا ہے۔ اس شخص کا کردار مذہب تک ہی محدود نہیں سیاست کے حوالے سے بھی غلاظت سے بھرا ہوا ہے خصوصاً عوام کے مقبول ترین قائد عمران خان کے حوالے سے اس کے منفی و منکرانہ خیالات کے سبب اسے پابندی لگا کر ابلاغ سے دور کر دیا گیا تھا۔ طویل عرصے بعد یہ ملعون انجینئر محمد علی مرزا مقتدر علمائے کرام سعید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، جیسے مقتدر علماء کیخلاف زہر افشانی کرتا رہا، جنہوں نے دین مبین کے حوالوں سے کئی نسلوں کی تربیت کی۔ مابعد اپنی مقبولیت و ریٹنگ کیلئے عمران خان و پی ٹی آئی کیخلاف بکواس کرتا رہا اور ذلیل ہو کر منظر نامہ سے ہی غائب ہو گیا۔ اب یہ محمد علی مرزا ایک بار پھر خان کے خلاف محاذ آراء ہوا ہے اور اپنے کلپ کے ذریعے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ٹرولرز کو پاکستان کے نظریاتی قتل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق کپتان کے ٹرولرز پاکستان کے نظریہ کو قتل کر رہے ہیں، وہ کہتا ہے کہ میں عمران خان سے ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ انہیں اس فتنہ و حرکت سے روکیں۔ محمد علی مرزا کا یہ اقدام اور خان کو ہٹلر سے تشبیہہ دینا خود اس کے فتنے کا سبب بن سکتا ہے اور ملک و قوم کے سب سے محبوب رہنما کیخلاف زہر اُگلنے کی پاداش میں محمد علی مرزا کیلئے اس کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارا دین و ملت کیخلاف اس فتنے کو جو پاکستان و اسلام دشمنوں کا پروردہ ہے اور انتشار و افتراق کی صورتحال کیلئے سرگرم ہے مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس ملعونیت و زہر افشانی سے باز آجائے۔ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کروڑوں پاکستانی عمران خان کی عقیدت و محبت سے سرشار کسی بھی طرح محمد علی مرزا کو عمران و پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی اجازت نہیں دینگے اور اس کی فتنہ گردی کو بدترین انجام دے سکتے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ انشاء اللہ تا ابد قائم رہے گا اور عمران خان کا جمہوریت، حقیقی آزادی و رول آف لاء کا منشور کامیاب ہو کر رہے گا۔ فتنہ تو دراصل محمد علی مرزا جیسے لوگ ہیں جو دین و ملت کیلئے انتشار و افتراق کا سبب بن رہے ہیں۔
٭٭٭