عکسِ ثانی- شعرِ لافانی!!!

0
124
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

نور الدین ثانی بند عرفانی اور شاعرِ وجدانی ہیں۔ آپ کا تعلق صالح پور، پھلکا، کٹہیار، بہار بھارت سے ہے۔ عکسِ ثانی ان کا مجموع کلام ہے۔ کتاب پر میری رائے کے خواستگار ہیں۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل تشبیہات و استعارات اور تلمیحات و اشاریت کی علم بردار ہے۔ غنائیت غزل کی خصوصیت ہے۔ غزل ہماری تہذیب و تمدن کی نمایندہ ہے۔ غزل روحِ شاعری اور آئین زندگی ہے۔ غزل ذاتی، آفاقی، سماجی، سیاسی اور انقلابی افکار کا اظہار یہ ہے۔ اردو ادب کے ممتاز نقاد نظیر صدیقی رقم طراز ہیں، غزل میں مشرق و مغرب کے مزاج اور انسانی فطرت کے اسرار و رموز کے اظہار کی جس قدر گنجائش ہے وہ شاید کسی اور صنف میں ممکن نہیں،ایک زمانہ تھا جب اردو شاعری کا ابتدائی دور تھا۔ ولی دکنی سے لے کر مرزا غالب تک جب اردو شاعری پہنچی تو غالب کو کہنا پڑا !
فارسی بین تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموع اردو کہ بی رنگِ من است
لیکن آج جب ہم دور جدید کے اردو شعرا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم ببانگِ دہل یہ اعلان کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اب اردو شاعری کا دامن بہت وسیع ہے۔ مجھے نور الدین ثانی کی غزلیات نے مسحور و مخمور کر دیا۔ اخلاص شاعری کی بنیاد ہے۔ میں نے اِن کی غزلیات میں بوئے خلوص پائی جس سے اِن کی شاعری سوز و ساز سے معمور ہے۔ اِن کی غزلوں میں نغماتی آہنگ اور طلسماتی رنگ ہے۔ جیسے اِن کی طبعِ حساس سادہ ہے ویسے ہی اِن کی شاعری کی زبان سادہ ہے۔ اسلوب میں روانی اور فکر میں تابانی ہے۔ آپ مذہبی اور اخلاقی روایات سے وابستہ ہیں گویا اِن کی شاعری بقولِ علامہ اقبال جزویست از پیمبری والا معاملہ ہے۔ داستانِ ہجر و وصال اور ذکرِ حسن و عشق شاعری کا جزوئے لا فینک ہے جو کہ وارداتِ قلبی ہے اور اہلِ دل کا سرمایہ جاں ہے۔ اِن کے کئی اشعار پڑھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ!
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست-
آپ کا بچپن نہایت غربت وحسرت میں گزرا، فاقہ کشی، کمپرسی، اور افسردگی زندگی کا اثاثہ رہا- مزدوری کرتے رہے۔ حادثاتِ زمانہ اور حوادثِ زندگی نے حساس بنا دیا اور یہ ذہنی اور قلبی کئفیت اِن کے اشعار میں نمایاں ہے۔ احسان دانش مزدوری کرتے رہے۔ ان کے کلام میں مزدوروں ، مجبوروں اور مقہوروں پر اشعار کی فراوانی ہے۔ انہیں شاعرِ مزدور کہا جاتا ہے۔ میری نظر میں نور الدین ثانی آج کے عہد کے شاعرِ مزدورِ ثانی ہیں۔ اِن کا تخلص بھی ثانی ہے۔ اِن کے کلام کے مطالعہ کے بعد تین موضوعات اِن کے کلام کے محور ہیں۔ رومانوی، انقلابی اور سیاسی۔چند رومانوی اشعار سنیے اور سر دھنیے !!!
کوئی شکوہ نہیں زمانے سے
دل تو ٹوٹا ہے دل لگانے سے
قفس میں جب پرندہ تڑپتا رہتا ہے
کسی کی یاد میں ایسے مچل رہا ہوں میں
غربت و جہالت تیسری دنیا کا مقدر بن چکی ہیں۔ مغربی استعمار و استبداد نے ہمیں ذلت اور نفرت و نکبت کے دامِ ہمرنگِ زمیں میں مقید کر دیا۔ اِن کے بعض اشعار انسانی ضمیر کو یکسر جھنجھوڑ دیتے ہیں-چند انقلابی اشعار ملاحظہ کیجئے!بھوک بچوں کی ماں سے نہ دیکھی گئی۔
آبرو بیچ دی مفلسی کے سبب
ایک دن مہنگا پڑے گا تجھ کو
حق غریبوں کا دبا کر رکھنا
آپ نے مروجہ جاگیردارانہ ، مکارانہ ، ظالمانہ اور سرمایہ دارانہ سیاست پر یوں ضربِ کاری لگائی ہے۔ کہتے ہیں
درندوں کی حمایت ہو رہی ہے
یہ کیسی اب سیاست ہو رہی ہے
بھلا انصاف اب کیسے ملے گا
بکا جب عدالت ہو رہی ہے
اپنی حالاتِ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں-
میں نے اپنی آنکھوں سے جو دیکھا، کانوں سے جو سنا اور زندگی کے تلخ تجربات سے جو کچھ سیکھا اسی کو اپنا موضوعِ سخن بنایا۔ نامساعد حالات نے جو کچھ دیا اسی کو لوٹا دیا-
گویا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نور الدین ثانی کی شاعری ساحر لدھیانوی کے اِس مشہورِ زمانہ شعر کی عکاس ہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here