بنگلہ دیش کی باشعور قوم نے مجیب الرحمن شیخ کی٧١ سالہ صاحبزادی شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور ایسا کرنے میں١٣سو طلباء اور عوام کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اتوار کے دن طلباء نے بنگلہ دیش عوام کو ڈھاکہ میں جمع ہونے کو کہا تھا۔ کہ وہ پیر کے دن کے ڈھاکہ میں آکر شیخ حسینہ کی رہائش کا گھیرائو کریں۔ لیکن جب شیخ حسینہ نے اعلان کیا انٹرنیٹ بند ہوگا اور٢٤گھنٹے کا کرفیو لگے تو طلباء نے پینترا بدلا کہ پیر نہیں اتوار کو ہی آجائیں طلباء کے اس اعلان کے بعد پورا بنگلہ دیش ڈھاکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ شیخ حسینہ کا خیال تھا کہ آرمی اس کا ساتھ دے گی۔ پولیس تو پہلے ہی اُسکے ساتھ تھی لیکن آدمی نے مداخلت سے انکار کردیا اور پھر پولیس نے بھی گولی نہیں چلائی۔ البتہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہتھیار لے کر طلباء پر دھواں دار گولیاں چلائیں نتیجہ میں کافی طلباء مارے گئے۔ تب طلباء نے ایک قدم اور آگے اٹھایا کہ شیخ حسینہ سے وہ خود بدلہ لینگے اور اس کی رہائش گاہ کی طرف بڑھنے لگے۔ تب شیخ حسینہ نے جان لیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور اس نے آرمی سے بات کی کہ اُسے ملک سے نکالا جائے اور استعفٰے دے دیا۔ آرمی نے اُسے ہیلی کاپٹر سے فوجی ایئرپورٹ پہنچایا جہاں سے وہC-31طیارے میں بحفاظت دہلی کے لئے روانہ ہوگئی۔ اور اب اس کا سفر لندن کی جانب ہے جہاں وہ پناہ لے گی۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا اس پر نظر ڈالتے چلیں کہ شیخ حسینہ نے مکتی باہنی جو 1971 میں پاکستان کی فوجوں کے مقابلے پر تھی۔ کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم رکھا تھا پھر ان کے بچوں اور عزیز اقارب کے لئے بھی کوٹہ سسٹم35فیصد کردیا تھا۔ نتیجہ میں طلباء جن کی تعلیم ختم ہوچکی تھی کو ملازمتیں نہیں مل رہی تھیں جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں گئے تھے اس سے پہلے کو فیصلہ شیخ حسینہ کے مطابق ہوتا طلباء لیڈروں اور اس محاذ میں شامل طلباء پر سختیاں کرنا شروع کر دی تھیں اور ایک جھڑپ میں جو پولیس اور طلباء کے درمیان تھی ہزار سے زائد طلباء مارے گئے تھے اور باقی جیل میں بند کردیئے گئے تھے۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے طلباء کی درخواست پر انکا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ خیال رہے شیخ حسینہ کی حکومت نے اپنے دور میں جماعت اسلامی کے کئی بزرگ لیڈروں کو پاک فوج کا ساتھ دینے پر پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔ اور اب جماعت اسلامی نکل کر میدان میں تھی۔ اسی دوران بنگلہ دیش فوج نے شیخ حسینہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ آج جب شیخ حسینہ ملک بدر کی گئی تو بھی ملک میں افراتفری پھیل گئی تھی فوج نے جماعت اسلامی کے شفیق الرحمن سے بھی ملنے کا وعدہ کیا تھا اور آج پیر کے دن بنگلہ دیش آرمی کے چیف نے ایک تاریخی پریس کانفرنس کی اور کہا”ہم پر بھروسہ رکھو ہم تمہاری حفاظت کے لئے ہیں اور تمہارے ساتھ ہیں۔” بنگلہ دیش آرمی عوام کے اعتماد کی پہچان ہے آرمی چیف وقار الزماں نے مزید کہا ہم ہمیشہ سے ہی تمہارے ساتھ تھے ہیں اور رہینگے تمہارے حق کے لئے اور ملک کی بہتری کے لئے ہم صدر سے ملینگے میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ آپ کی ڈیمانڈ پوری ہوگئی ہے۔ ہم جلد ہی عبوری حکومت بنائینگے۔ اور اب آپ سکون سے گھر جائیں وہ ہی ہوگا جو آپ کے لئے بہتر ہے۔ خیال رہے سپریم کورٹ نے35فیصد کوٹہ سسٹم ختم کردیا تھا۔ ممکن تھا کہ طلباء خاموش ہوجاتے لیکن جلد بازی اور آمرانہ خصلت نے شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش سے وجود ختم کردیا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ شیخ حسینہ کی بیرونی پالیسی انڈیا کے حق میں تھی اور ہر جگہ خفیہ ایجنسی”را”(R&AW)کا ایجنٹ گھسا ہوا تھا۔ انڈیا اپنی شرپسندی کے لئے مشہور ہے اپنے پڑوسی ممالک، نیپال، بنگلہ دیش بھوٹان، برما اور سری لنکا کے اندرونی معاملات میں طاقت کے بلبوطے پر دخل اندازی کرتا رہتا ہے۔ اُسے اس کام میں امریکہ کا آشیروار بھی شامل ہے۔ خود ملک کے اندر کشمیر میں جو جغرافیائی تبدیلی کی ہے اور وہاں کی مسلمان آبادی پر جو تشدد کرتا رہا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اڑیسہ اور آسام میں انڈیا کا مخالف گروپ اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے اندرا گاندھی کے دور میں سکھوں کی خالقان کی تحریک کو اپنے فوجی ایکشن سے امرتسر میں انکے گولڈن گردوارے میں گھس کر باغی گروپ کے جنرلوں کو ختم کرکے تحریک کو دبا دیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو ٹرینڈ کرکے اسلحہ دے کر پاکستانی فوج کے خلاف محاذ بنایا تھا جس میں وہ کامیاب تو نہ ہوتا لیکن پاکستان کے سیاست دانوں اور آرمی جنرلز نے بنگلہ دیش تھالی میں سجا کردے دیا اور93ہزار فوجیوں سے ہتھیار ڈالوا کر اسلامی تاریخ کو گندہ کردیا ہمیشہ کے لئے۔
انقلاب کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بنگلہ دیش میں تھے اور ہیں۔ یعنی ایک قوم، ایک زبان، اور آرمی کا غیر جانبدار ہونا اور عوام کا باشعور ہونا کہ یہ ملک انکا ہے اور انکے بچے بڑے ہو کرلینگے۔پاکستان کی جو صورتحال ہے وہ مختلف ہے پہلی بات یہ کہ آرمی بذات خود ملک کی طاقتور پارٹی ہے جو صرف اپنا مالی فائدہ سوچتی ہے۔ جو جلد ہی اپنے فائدے کے لئے مغرب کی غلام بن جاتی ہے۔ اُن کے نزدیک غیرت اور ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں اور آپس میں اندرونی طور پرآمی جنرلز ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ اور مغرب زدہ جنرلز نے کئی باضمیر جنرلز کا کورٹ مارشل کرایا ہے۔ اور موت کی سزا دی ہے کچھ کو ہیلی کاپٹر میں خرابی کی نذر کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق ہر چند کہ وہ آمر تھا۔ مذہب کی انتہا بھی تھی اور مسلمانوں پر قتل عام بھی مچایا اس کے دور میں فلسطینیوں کا قلع قمع کیا گیا جب شاہ اردن نے کمانڈ ضیاء الحق کو دی۔ پھر امریکہ کا پٹھو بن کر افغانستان میں بن لادن کو مدد فراہم کی اور جب یہ سب کچھ ختم ہوا تو پاکستان میں وہ ہی مجاہد دہشت گرد بن کر آرمی جنرلز کی زیرنگرانی حکم بجالا رہے ہیں۔ ان پر بات کرنا اپنے ضمیر کو گندہ کرنا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں حالات کتنے ہی ستیاناس ہوجائیں۔انقلاب کی طرف نہیں جاتے جب بنگلہ دیش بنا تھا۔ آبادی7کروڑ کی تھی اور پاکستان کی آبادی چھ کروڑ ساٹھ لاکھ تھی انکی آبادی آج سترہ کروڑ پچاس لاکھ ہے جب کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ کر24کروڑ57لاکھ ہے۔ آج کی تاریخ میں اس میں شعور سے زیادہ مذہبی جنون اور بے روزگاری ہے۔
بنگلہ دیش کی آرمی کے اس قدم سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ملک اور عوام کے لئے وقف ہیں وہ نہ تو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم سرحدوں پر اس تو تم چین کی نیند سوتے ہو اور نہ ہی گانے بناتے ہیں مزید کیا لکھیں کہ حافظ قرآن ہو کر بھی کوئی منافقت کرسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے وقار الزماں سے یہ مقابلہ نہیں کرسکتے جو عوام اور طلباء کے ساتھ ہیں ورنہ شیخ حسینہ انڈیا کے موقف پر چلتی رہتی اور یہ بات وقارالزماں کو پسند نہ تھی۔ پھر اتنے طلباء کے قتل عام پر اس کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ وہ شیخ حسینہ کی طرف داری کرکے یقیناً امریکہ نے پیغام بھجوایا ہوگا۔ ہم ایسے شخص کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جو اپنے عوام کی حفاظت کے لئے خود کو پھیلا دیتا ہے اُن کے اردگرد۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی آمر بیٹی شیخ حسینہ کے عبرتناک انجام کو اپنے حکمرانوں کی نذر کرتے ہیں کہ سبق سیکھ لو۔ اگر وہاں انقلاب نہیں آسکتا کہ پاکستان میں چار قومیں قابض ہیں سندھی سندھ پر، نوازشریف پنجاب(11کروڑ)پر پٹھانKPKپر اور کوئٹہ بلوچستان آرمی کے قبضہ میں وہاں کوئی نہیں رہتا لگتا ہے۔ کشمیر میں زرداری اور نوازشریف دھینگا مشتی کرتی ہے کیا ان میں سے کسی نے سوچا یا کہا ہے دل سے کہ ہم عوام اور ملک کے ساتھ ہیں ان کا شعور چھین لیا گیا ہے۔ ڈالرز کھلا کر یہ نہ دشمن سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی حفاظت کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭