جسٹس قاضی فائز عیٰسی کیلئے ایک کھلا خطہ! !!

0
178
پیر مکرم الحق

عزب ماب جناب چیف جسٹس قاضی صاحب، اسلام وعلیکم
اس سے پہلے کہ میں اپنی گزارشات آپکے حضور پیش کروں حسن اتفاق ہے کہ میں اپنے پرانے کالموں کا مطالعہ کر رہا تھا تو وہ کالم میری نظر سے گزرا جوکہ راقم نے2000، 2001میں لکھا تھا یہ کالم ہفت روزہ پاکستان پوسٹ نیویارک میں شائع ہوا تھا۔ جس کا عنوان تھا جسٹس طارق محمود زندہ باد آج سے بائیس سال ہلے لکھا ہوا کالم آج بھی کئی حوالوں سے حسب حال ہے۔ یہ کالم بعد میں میری کتاب مہران رنگ(اردو)کا حصہ بھی بنا۔ یہ کتابیں2007ء میں شائع ہوئی تھیں۔ اس کالم کا پہلا پیراگراف آج کے موضوع سے مطابقت رکھنے کے باعث پیش خدمت کیلئے دیتا ہوں۔ ”بلوچستان کی بظاہر بنجر زمین میں کیا کیا خزانے پوشیدہ ہیں یہ تو ہم ہمیشہ سے جانتے تھے لیکن جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس رستم کیانی کی پیروی کرنے والے باہمت سچ کا غازی بلوچستان کے قبائلی معاشرے سے نمودار ہوگیا ہے ایک پرمسرت حیرانگی کی بات ہے”
آپ تو ماشا اللہ قاضی عیسیٰ صاحب جو قائداعظم کے ساتھی اور ان چند لوگوں میں جن کا شمار ہوتا تھا جنہوں نے بلوچستان سے قائد کی آواز پر لبیک کہا تھا اسلئے آپ کا تعلق پاکستان کے معماروں کے خانوادے سے ہے اور آپ ہم سب کیلئے قابل احترام وستائش ہیں۔ بہرحال اسکے بعد کچھ لگی لپٹی کہے بغیر آپ تلک پاکستان کی ستائی ہوئی عوام کی آواز گزارشات کے طور پر رقم کرنے کی جسارت کروں گا۔ (الف) پاکستان کی عوام معاشی بدحالی کے بدترین دورانیہ سے گزر رہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں کہا جارہا بلکہ ہر دور میں یہ رونا رویا جاتا ہے اعلیٰ عدالتیں اس معاشی بحران کی کلی ذمہ دار تو نہیں ہیں لیکن معاشی مقدمات میںSTAY ORDERکا بیجا اور طویل استعمال ان حالات کا جزوی طور ذمہ دار ضرور ہے اس کے علاوہ کچھ عرصہ سے اعلیٰ عدالتوں کے جج احبان کو دی جانے والی پرتعیش مراعات پر عوام کی برہمی کا احساس بھی مکمل طور پر ناجائز نہیں۔ پہلے تو فقطہ جرنلوں کو ریٹائر ہونے کے بعد زمین اور پلاٹ دیئے جاتے تھے اب کافی عرصہ سے یہ مرض عدلیہ میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ ان مراعات کا جائزہ لینے کیلئے ایک دو رکنی کمیٹی اگر آپ اپنی سربراہی میں بنا کر ایک جائز حد تک مراعات میں کمی بیشی اگر کی جائیگی تو کم ازکم عوام کے غم وغصہ میں کہی واقعہ ہوگی۔
(ب) زیرالتوا مقدمات کا ڈھیر نچلی عدالتوں سے سفر کرکے اب اعلیٰ ترین عدالتوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان زیرالتوا مقدمات کے طریقہ کار کو افتصار دیکر درخواست دھندہ کو اسکی زندگی میں اگر انصاف دیدیا جائے تو خاندان کے خاندان تباہ ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں۔ (پ) عدلیہ میں اب بدعنوانی کا مرض خصوصاً منشی/ریڈر اور چپراسی کے حد تک نو نہایت تیزی سے بڑھ گیا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ انسداد بدعنوانی کے بڑے ادارے نیب میں عدالت میں جج کے احب کی غیر حاضری پر تاریخ کی منسوخی پر نیب کا ریڈر2004ء میں مجھ سمیت تمام ملزمان سے مبلغ 500کا تقاضہ کرنا تھا۔ جب یہ شکایت میں نے رجسٹرار سے جاکر کی کہ بھئی مجھے آپ رہا نہیں کر رہے جیل واپس بھجوا رہے ہیں اس بات پر پیسے کیوں؟ تو رجسٹرار صاحب نے کہا آپ نہ دیں اور میں کلرک کو بلاتا ہوں جب کلرک اریڈر واپس لوٹے تو میں سمجھا کہ میرا روبکار تیار ہوگا لیکن انہوں نے پیغام دیا کہ سب سے بڑا شیئر تو رجسٹرار صاحب کا تھا آپ نے ان کو شکایت کرکے دیکھ لیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مخالفین کو محض اس لئے تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کردیں یا پلی بارگین کرکے رہا ہوجائیں ہمارے جیسے لوگ جن کے پاس وکیلوں کو دینے کے پیسے بھی نہیں وہ کیا پلی بارگین کریں۔
(ث) وکلا کی فیسوں کو بھی ریگیولیٹ کرنا ضروری ہے اور مہنگے وکلا کو مہینہ میں کم ازکم دو مقدمہ بغیر فیس کے نادار لوگوں کیلئے لینے کو(CMandatory)کردیا جائے۔
(ج) ماتحت عدالت میں ججوں کی حاضری کیلئے بائیومیٹرکس کا نظام رائج کیا جائے جو انکے باقی اسٹاف پر بھی لاگو ہو تاکہ غریب آدمی جو کرایہ خرچ کرکے عدالت پہنچتا ہے اسے ہر تاریخ پر بے مقصد چکر نہ لگانا پڑے۔
(د) زیرالتوا مقدمات میں لاوارث غریب قیدیوں کی انتظار گاہ میں پانی اور پنکھوں جیسے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ امیر اور دولتمند ملزمان اپنی ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں آتے ہیں اور تمام سولیات میسر ہوتیں ہیں اکثر لوگ بشمول میری زوجہ مجھ پر ہسنتی ہیں کہ کیا جو کچھ تم لکھتے ہو اس پر میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ پھر بھی چیختے چلاتے رہنا چاہئے ہم سندھی میں کہتے ہیں کہ ”واکا کرن موں وس بدھن کم بروج جو” واعاعرٹ موں وس پدٹھی کم پروج جو! یہ تو ہوا ازراہ مذاق
”NEED 70 ESTABLISH TRUTH AND RECONCILIATION COMMISSMN ” پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آج تک بہت دکھی ہیں خصوصاً سندھ کے لوگ جن کو ذوالفقار علی بھٹو سے عشق کی حد تک پیار تھا جنہیں تاریک راہوں میں رات کو دو بجے خاموشی سے پھانسی دیدی گئی یہ سب کچھ تو بلاشبہ ایک آمر کے احکامات پر ہوا لیکن اس میں اعلیٰ عدلیہ بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ اس سارے معاملے کوRevisit کرنے کی ضرورت اب اس لئے بڑھ گئی ہے کیونکہ مقدمہ چلانے والے ایک جج جوکہ اب دنیا سے رخصت ہوگئے انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے دبائو میں آکر بھٹو کو پھانسی دیدی۔ اس جج صاحب کا نام تھا نسیم حسن شاہد اللہ پاک انکو غریق رحمت کرے کم ازکم مرنے سے پہلے اعتراف جرم تو کرگئے باقی ججوں نے جو بھی دنیا سے رخصت ہوگئے نہ اس زیادتی کا اعتراف کیا نہ معافی مانگی سندھ کے لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ سے بڑی شکایت ہے۔ جس ججوں کی اکثریت پنجاب سے ہے اور سندھ کے لوگ نہ ف بھٹو بلکہ بینظیر کا قتل بھی اپنے والد کی جائے شہادت سے چند میٹروں گزروں کے فاصلے پر ہوئی تھی۔ یہیں پر لیاقت علی خان کو شہید کیا تھا۔ اگر یہ کمیشن ان تینوں شہادتوں کے اب تلک ہونے والے حقائق کو سامنے لائے اور اس میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کرے(جوکہ سارے مر چکے ہیں) تو بھی بہتر ہوگا اسی طرح اکبر بگٹی کے قتل پر بھی جو حکومتی موقف ہے اسی پر قائم رہ کر عوام کو آگاہ کیجئے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here