فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
80

محترم قارئین! حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تصوف کے چار درجے ہیں۔ پہلا درجہ علم شریعت ہے اس کے اوپر دوسرا درجہ عمل ہے اس کے اوپر تیسرا درجہ اخلاص ہے اور اس کے اوپر چوتھا درجہ خوف ہے۔ پہلا درجہ علم شریعت ہے امام غزالی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:علماء کے سوا تمام لوگ مروہ ہیں۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ لوگ کھاتے پیتے بھی ہیں نہ سوتے جاگتے بھی ہیں چلتے پھرتے بھی ہیں مگر پھر بھی سب کے سب مردہ ہیں۔ یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ کھانے پینے، سونے جاگنے اور چلنے پھرنے کا نام ایمانی زندگی نہیں ہے۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، چلنا اور پھرنا یہ تو حیوانی زندگی کے آثار ہیں ایمانی ز ندگی تو درحقیقت دل کی زندگی ہے جس کو یوں بیان کیا گیا ہے:
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبادت ہے تیرے جینے سے
اور یہ دل کی زندگی جو ایمانی زندگی ہے درحقیقت اس کی روح علم نبوت ہے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ترجعہ: کیا علم والے اور بے علم دونوں برابر ہوسکتے ہیں” نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ علم والے زندہ ہیں اور بے علم مردہ ہیں اور زندہ و مردہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے لہٰذا خوب سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر علم نبوت کے دل کی زندگی محال ہے اور یہی وجہ ہے کہ تصوف کا سب سے پہلا درجہ علم ہے، چنانچہ کسی عارف نے کہا ہے!
علم ہی جب نہیں تم میں تو عمل کیا ہوگا
جس خیابان میں شجر ہی نہیں پھل کیا ہوگا
اب علم کے اوپر دوسرا درجہ عمل کا ہے جس کے متعلق امام غزالی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے”تمام علماء سو رہے ہیں بیدار صرف وہی علماء ہیں جو عمل کرنے والے ہیں۔” علم کے بعد عمل بڑی اہم چیز ہے اور اے عمل عاملوں کے لئے بڑی زبردست وعیدیں ہیں قرآن مجید میں بے عمل عالموں کی بڑی عبرت خیز مثال بیان فرماتے ہوئے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے: ترجعہ:”جن لوگوں کو تو رات کا علم دیا گیا پھر ان لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جو کتابوں کا بوجھ اپنے اوپر لادے ہوئے ہے” حضرت شیخ سعدی رضی اللہ عنہ اسی آیت کے مضمون کا حسن پیرایہ میں ترجعہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ترجعہ: ”تم کتنا ہی زیادہ سے زیادہ علم پڑھ لو لیکن اگر تم میں علم نہیں ہے تو بغیر عمل کے بے علم ونادان ہی ہو” مزید فرمایا: ”نہ تم محقق ہوسکتے ہو، نہ تم دانش مند کہلا سکتے ہو بلکہ تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی چوپائے کے اوپر چند کتابیں لدی ہوئی ہوں۔” مزید فرمایا: ”اس خالی مغز جوپائے کو کچھ علم وخبر نہیں ہے کہ اس کی پیٹھ پر لکڑی لدی ہوئی ہے یا کتابوں کا دفتر ہے” تصوف کا چوتھا درجہ اخلاص ہے حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علم بھی پڑھا عمل بھی کیا مگر پھر بھی سراسر نقصان ہی نقصان میں رہیں گے نفع میں صرف وہی عمل کرنے والے رہیں گے جن کے عمل میں اخلاص بھی ہو کیونکہ عمل کی مقبولیت کے لئے اخلاص شرط ہے بغیر اخلاق کے کوئی عمل بارگاہ خداوندی میں مقبول ہی نہیں ہوتا اخلاص کیا ہے؟ اخلاص کے یہ معنی ہیں کہ عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے مکر وریا کے لئے یا شہرت یا لذت نفس کے لئے جو عمل کیا جاتا ہے وہ خدا کے دربار میں ہرگز قبول نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں رب تعالیٰ نے اخلاص کا حکم اس طرح بیان فرمایا ہے ترجعہ:”اے محبوب! آپ فرما دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ ہی کے لئے ہے آج کل تو وہی بات ہے کہ بمبئی میں ایک صاحب نے کسی سے پوچھا کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ”حاجی عبدالکریم” پھر اس نے پوچھا کہ جناب کا اسم شریف؟ تو یہ بولا کہ میرا نام ہے”نمازی عبدالرحیم” حاجی عبدالکریم نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ بھائی ! یہ نمازی عبدالرحیم کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اجی! تم نے بلیک مارکیٹ کے پیسے سے ایک مرتبہ حج کرلیا کہتے ہو حاجی، لکھتے ہو حاجی یہاں تک کہ اپنا نام بتاتے ہو تو اس میں بھی حاجی کا پچر لگاتے ہو اور میں دن میں روزانہ پانچ مرتبہ نماز پڑھتا ہو تو میں نے اگر اپنے نام کے ساتھ نمازی کا ٹائیٹل لگا لیا ہے تو کون سا گناہ ہوگیا؟ جو نمازی عبدالرحیم سن کر آپ کے کان کھڑے ہوگئے۔
تصوف کا آخری اور سب سے بلند درجہ خوف خداوندی ہے حضرت امام حجتہ الاسلام غزالی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علم وعمل اور اخلاص کے باوجود بھی مسملان خطروں میں گھیرا ہوا ہے کہ کہیں یہ سب غارت نہ ہوجائے۔ خطرہ سے محفوظ وہ مسلمان ہے جو علم وعمل اور اخلاص کے بعد خدا سے ڈرتا ہے گناہ کرکے کوئی شخص خدا سے ڈرے اگرچہ یہ خوف خدا بھی بڑا درجہ رکھتا ہے۔ مگر علم وعمل اور اخلاص کی دولتوں کا پونجی پنی ہوتے ہوئے جو مسلمان خدا سے ڈرتا ہے اس خوف خداوندی کی عظمت شان کا کیا کہنا؟ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے متعلق مذکورہ ہے کہ عید کے دن لوگ کا شانہ خلافت پر تشریف لائے تو کیا دیکھا؟ آپ دروازہ بند کرکے زاروقطار رو رہے ہیں لوگوں نے حیران ہو کر تعجب سے پوچھا کہ امیرالمئومنین! آج صبر کا دن ہے آج تو شادمانی ومسرت اور خوشی منانے کا دن ہے یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟ آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! یہ عید کا دن ہے تو وعید کا دن بھی ہے آج جس کے تمام روزے مقبول ہوگئے بلاشبہ اس کے لئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کا روزہ مردود ہوگیا اور اس کے منہ پر مار دیا گیا تو اس کے لئے آج وعید کا دن ہے اور میں اس لئے رو رہا ہوں کہ مجھے یہ پتا نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا کہ پھٹکاں دیا گیا ہوں …مقام ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا روزہ اور قبول نہ ہو؟ کیا معنی؟ یقیناً آپ کا روزہ مقبول تھا بیشک مقبول تھا، بلاشبہ مقبول تھا مگر یہ وہی خوف خدا کا ہی اعلیٰ مرتبہ ہے کہ علم وعمل اور اخلاص سبھی کچھ ہے مگر اس کے بعد بھی خوف خدا سے تھرا رہے ہیں کہ نامعلوم میرا روزہ مقبول ہوا یا نہیں؟ بس علم، عمل، اخلاص اور خوف خدا کی دولت بہت بڑی دولت ہے اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ہندوں کے صدقے سے ہمیں بھی یہ دولت عطا فرمائے اور ان محبوبین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here