”ہم زندہ قوم ہیں”

0
34

یوم پاکستان کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف قومی نغموں کی گونج ،گلی کوچوں ,بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر جھنڈیاں اور سبز ہلالی پرچم نظر آئینگے۔ جلسے ،جلوس ، تقاریر ، واعظ۔ قائداعظم کے فرمودات۔ بانیان پاکستان کے قصے اور کہانیاں۔ قیام پاکستان کے موقع پر جانیں قربان کرنے والوں کو خراج تحسین۔ یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے۔
بحثیت پاکستانی ھم ترانوں،نغموں ،قصے اور کہانیوں میں ایک زندہ قوم ہیں۔ وہ زندہ قوم جو اپنے بچوں کے مستقبل سے غافل ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد سے غافل ہے۔ بنیادی فلسفہ اور نظریات سے غافل ہے۔ لاکھوں قربانیوں۔ آگ اورخون کے سمندر پار کرنے کے بعد حاصل ملک پرقومی مجرم قابض۔ چور اور کریمنلز قابض۔ سفاک درندے قابض۔ قاتل اور لْٹیرے قابض۔ قیمتی زمینوں پر وڈیرے، سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹس اور طاقتور مافیا قابض۔ قومی اور ملکی وسائل پر ڈاکہ۔ معدنیات میں بندر بانٹ۔ بانیان پاکستان کے بنیادی فلسفہ اور پاکستان کا مطلب کیا ( لاالہ الا محمدرسول اللہ سے غداری۔مگر ہم زندہ قوم ہیں۔
ہر ہر ادارہ میں جھوٹ ، غداری اور دھوکہ ہمارا قومی کھیل۔ناپ تول میں کمی، ملاوٹ ،دو نمبری اور جعلی ادویات ہماری زندگی کے عام معمولات۔ مساجد ،عید گاہوں ،گراؤنڈز ،پر ناجائز قبضے اور زور زبردستی ہمارا قومی کھیل۔ ماشاء اللہ ہماری عدالتوں کے باہر ترازو۔قاضیوں کے فیصلے مجرموں کے حق میں۔ انصاف کے حصول کے لئے لوگ دربدر۔ظلم اور ناانصافی کا معاشرہ۔عدلیہ شریف پوری دنیا کی عدالتوں میں 146ویں نمبر پر۔فیصلوں میں بددیانتی۔ ججز کی بھاری تنخواہیں ،مراعات اور شاہانہ پروٹوکول۔بیوروکریٹس کی شاہانہ زندگی ، تیس فیصد بیوروکریٹس کی ڈبل نیشنیلٹی۔ملک میں تعلیم تباہ کرنے والوں کے بچوں کی بیرون ملک یونیورسٹیز میں تعلیم۔جرنیلوں کے ٹھاٹھ باٹھ کے کیا کہنے۔اربوں روپے کی اندرون اور بیرون ملک پراپرٹیز ، جرنیل،کرنیل مرتے دم تک کسی نہ کسی ادارے میں گھس بیٹھیئے۔پروٹوکول ،مراعات اور لوٹ مار کا appetizer اسکے علاوہ۔سیاستدانوں، جرنیلوں، ججز اور بیوروکریٹس کے بچے اور بھائی۔یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے تعلیمی اداروں میں تعلیم اور کےchain سٹوروں کے مالک۔ کیونکہ ہم زندہ دل اور زندہ قوم ہیں۔بیوروکریٹس، ججز، جرنیل ہر سال فری عمرہ کی سعادت۔ان قومی مجرموں کوقاتلوں ،ڈاکوؤں اور لْٹیروں کیطرف سے لنڈن، پیرس اور امریکہ میں شاپنگ۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اللہ کے گھر گزارنا۔ کئی کئی حج کرنا۔نوے نکور ہوکر پھر وہی جھوٹ، وہی دھوکہ ،وہی فراڈ اور وطن فروشی۔مگر ہم زندہ قوم ہیں۔ مسجد کء اگلی صف میں نماز۔ تسبیح اور وظیفہ کی یلغار۔ لیکن وہی جرائم ، وہی ملاوٹ برقرار۔بیوروکریسی میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال اور لوٹ مار۔فرائض منصبی میں کوتاہی۔ قوم و ملک سے ہر قسم کی غداری لیکن پھر بھی محب وطن۔ ختم نبوت پر یقین۔ لیکن عقیدہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی (غوث اعظم )کو مْردوں کو زندہ کرنے والا مانتے ہیں۔قبر میں سوال جواب سے غوث اعظم کے ماننے والے بری الذمہ۔ عبادت خدا کی منگتے داتا کے۔ اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کا دعوی لیکن سارے معاملات رسول خدا کے خلاف۔ نظام خلافت پر یقین۔ مگر چناؤ کے موقع پر مجرموں اور کریمنلز کو ووٹ۔
اسلامی نظام کے دعوے لیکن سیکولر اور بددین لوگوں کا انتخاب۔ کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں۔ کاروبار میں ملاوٹ،کرپشن، دونمبری اور فراڈ۔ مساجد میں ممبر رسول پر جھوٹ اور غیروں کی باتیں۔واعظ و نصیحت میں سادگی ، پیوند لگے کپڑے ، سوکھی روٹی اور عجزو انکساری کی تلقین۔ چندوں پر لینڈ کروززر،اور مہنگی گاڑیاں کی سواری۔
مساجد میں مسلکی جھگڑوں کی بنیاد ،کمیونٹی کی تقسم اور نفرت انگیزی علمائ کی اکثریت کا بنیادی کردار ہیں۔ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں وصیت۔
ہمیں چاہئے ہمیشہ سچائی اور حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ایک دوسرے کے لئے خیر کا باعث بنیں۔ جو شخص دوسروں کے لئے خیر کا باعث بنتا ہے۔ اللہ رب العزت اْس کی نسلوں میں خیر منتقل کرتا ہے۔
ریاستی ادارے اپنی نسل کو تباہ کررہے ہیں۔ نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔اسلام کا قعلہ پاکستان گزشتہ ستر سال سے سیکولرازم کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔
ابھی تک قوم کو یہ معلوم نہیں ھوسکا کہ اس ملک میں نظام کونسا ھوگا۔
قانون کی بات کریں تو کبھی برٹش لاء کبھی اسلامک لاء ۔کبھی فوجداری قانون۔ جو جی میں آپ پر وہی قانون لاگو۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ریاست کا کردار دہشت و وحشت ہے۔ظلم و بربرئیت ہے۔ جھوٹ اور مکاری ہے۔ پاکستان کے قیام سے ملک میں دو قومیں رہ رہی ہیں۔ایک ظلم کرنے والی اور دوسری ظلم سہنے والی قوم۔ ستر سال سے خادم اور حاکم کا کھیل جاری۔ قوم کے مخافظ لوگوں کو اغوائ کرتے ہیں۔ غائب کرتے ہیں۔لاشے بجھواتے ہیں۔
لوگوں کو ننگا کرتے ہیں۔ نظام کو اپنے مرضی سے چلاتے ہیں۔ قوم خاموش تماشائی کی حیثیت سے اس منظر نامے کو دوام بخشتی ہے۔ آزاد ملک۔ آزاد قوم کی برداشت اتنی کہ پانچ روپے پر لڑائی۔ دو سو یونٹ کے بیس ہزارروپے بل کی انتہائی ادب سے ادائیگی۔ پرائیویٹ پاور سیکٹر میں آئی پی پی نے بجلی کے قیمتوں میں اضافے کے بم عوام پربرساتے ہیں۔آئی پی پی کے چالیس خاندانوں کو اکیس سو ارب روپے دئیے جاتے ہیں جو صرف پچیس فیصد بجلی پروڈیوس کرتے ہیں۔ چالیس فیصد آئی پی پیز ایک بھی پرسنٹ بجلی فراہم نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے یہ معاہدے کئے۔پی ٹی آئی کی قیادت میں بھی یہی لوگ موجود ہیں۔اسی فیصد سیاسی لوگ ہیں۔حکمران خاندانوں سے تعلق رکھتے ہئں۔کاش ان کا فرینزک آڈٹ ہو۔ تاکہ قوم کو ان بددیانت مجرموں کا پتہ چلے۔ مگر زندہ قوم دھنیہ پی کر سوئی ہے۔ گھروں کی چیزیں بیچ کر ماں بہن اور بیوی کے زیورات بیچ کر بل ادا کئے جارہے ہیں۔
ستر سال سے جرنیل لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہئں۔اسی لئے یہ سیاست کرتے ہیں۔ کریمنل سیاستدان بیوروکریٹ اور جرنیل لوٹ مار اور ملکی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ایک پیج پر ہیں۔ھم میں۔برداشت اتنی کہ ایک مرلہ پر جھگڑا ، لاکھوں ایکٹر پر قابض مجرموں کے ناجائز تسلط پر خاموشی۔
برداشت اتنی کہ آلودہ پانی، ناقص غذا، جعلی ادویات، ناقص نظام صحت اور ناقص نظام تعلیم کے نظام پر خاموشی۔ ناقص ٹرانسپورٹ۔ آئے روز قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ۔ ناجائز اور ھوشربا بلوں میں اضافہ۔غلامی کا طوق اور آزادء کا نعرہ۔ کیونکہ ھم زندہ قوم ہیں۔
علم کتنی بڑی دولت ہے۔ یہ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان بتا سکتے ہیں۔
صحت کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہ پرائیوٹ ہاسپیٹل مالکان ہی بتا سکتے ہیں۔
عوام کے لئے نہ صحت اور نہ تعلیم۔
”ہر شاخ پے اْلوبیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ھوگا۔”
ان ظالم منافقوں سے چھٹکارا ملک کی تقدیر کا ضامن ہے۔
ہوسکتا ہے ملک میں منافقت بازی لے جائے
لیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا۔ان منافقوں کو کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
یہ انہی پسے ھوئے عوام کے ہاتھوں ھوگا جنہیں آزادی کی قدر ہے۔
آزادی کی قدر اْسے ہے۔ جن میں جوابدہی کا احساس ہے۔جوابدہی کا احساس اْسے ہے۔ جو اللہ پر مکمل ایمان اور رسول خدا کی تعلیمات پر یقین رکھتا ہے۔
یاد رکھئیے آج ہم ہیں تو کل نہیں ھونگے۔
ہم سب اخلاق کی ،کردار کی بات کرتے ہیں۔لیکن ہر شعبہ زندگی میں بدکردار،بددیانت اور ظالموں کا انتخاب کرتے ہیں۔معاشرے کے ناسور ملک و قوم پر مسلط کرتے ہیں۔ چوروں کو کوستے ہیں مگر ہر پانچ سال بعد انہی لْٹیروں کے ہاتھ میں ملکی تقدیر تھما تے ہیں۔
پاکستان میں سیاست بڑی بے رحم چیزہے۔ جہاں عوامی ہمدردی کے حصول کے لئے لاشوں اور قبروں کو بیچا جاتا ہے۔
آپ کے ووٹوں سے منتخب ھونے والے ضمیروں کے سودے کرتے ہیں۔اپنے حلقوں میں پورے پروٹوکول اور عزت سے گھومتے ہیں۔ان بے حس ظالموں کو عوام کی اْمنگوں
کا قتل کر کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔چونکہ ہم زندہ قوم ہیں۔ڈاکٹڑ عبدالقدیر مرحوم کے تاریخی الفاظ ہیں کہ پاکستان سے جتنی بڑی غداری کرو گے اْتنا بڑا پروٹوکول اور انعام ملے گا۔
جتنی بڑی وفا کرو گے اتنی بڑی سزا ملے گی۔
اس کا ملاخظہ آپ روزانہ کرتے ھونگے۔کہ ملک لوٹنے والے غدار اقتدار کی مسندوں پر ہیں۔ چونکہ ھم زندہ قوم ہیں۔ ایسا بابرکت ملک ہے۔ جسے کتے بلے سبھی ملکر نوچ رہے ہیں۔جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔لیکن بفضلہ تعالی سے قائم و دائم ہے۔
آج ہمارے اوپر کون اور کیوں مسلط ہیں۔
ہلاکو خان کی بیٹی کے سامنے بغداد کے ایک بڑیعالم کو پیش کیا گیا جسے زنجیروں میں جکڑا گیا تھا۔ مغرور شہزادی نے عالم کو حقارت سے دیکھا اور پوچھا
تم لوگ تو کہتے ہو کہ تمہارا خدا تم سے محبت کرتا ہے۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ کیا تمہارے خدا نے تم پر چنگیزیوں کو غالب نہیں کر دیا؟
عالم نے جواب دیا۔ یقینا اس وقت آپ ہم پر غالب ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے ہم سے محبت چھوڑ دی ہے؟
شہزادی نے پوچھا تو پھر تمہارے خدا نے تمہاری مدد کیوں نہیں کی؟
عالم نے پوچھا شہزادی صاحبہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ چرواہے نے جہاں سینکڑوں بھیڑ بکریوں پالی ہوتی ہیں اس کے ساتھ اس نے دو چار کتے بھی رکھے ہوتے ہیں؟ کیا آپ اس کی وجہ جانتی ہیں؟
شہزادی نے جواب دیا۔ وہ اس لئے کہ اگر کچھ بھیڑیں ریوڑ کو چھوڑ کو راستے سے بھٹک جائیں تو چرواہا ان کے پیچھے کتے لگا دیتا ہے جو انہیں ڈرا دھمکا کر کر واپس اپنے ریوڑ میں لے آتے ہیں۔
عالم نے مسکرا کر کہا۔ شہزادی صاحبہ اسی طرح ہم بھی خدا کا ریوڑ ہیں۔ اور آپ وہی چرواہے کے کتے ہو۔ جب ہم نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کے احکامات چھوڑ دیئے تو اس نے ہم پر آپ جیسے کتوں کو مسلط کر دیا۔ جس وقت ہم اپنی غلطیوں سے تائب ہو کر واپس اپنے ریوڑ میں آ جائیں گے وہ دوبارہ سے ہم پر مہربان ہو جائے گا۔ پھر آپ کا کام ختم ہو جائے گا۔
عالم کی بات سن کر شہزادی کا غصہ انتہاؤں کو چھونے لگا۔ اس نے فورا سپاہی کو حکم دیا کہ اس گستاخ کا سر قلم کر دیا جائے۔
بس یہی سبق ہے آج کا
جب ہم خود ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم پر درندے اور سفاک لوگ حکومت نہیں کر سکیں گے۔ نہ امریکہ اور برطانیہ کے کتے ہم پر مسلط ھونگے نہ امریکہ یروشلم کو بیچے گا نہ اسرائیل غزہ میں قتل عام کر سکے گا۔ نہ انڈیا کشمیر کو کھا سکے گا نہ برما میں مسلمان شہید ہونگے. بیشک اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں۔لیکن ملک پر ستر سال سے قابض بیرونی گماشتوں کا راستہ بھی روکیں۔جو ملک میں امن،صحت،انصاف،تعلیم اور معیشت کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ان سے چھٹکارے میں ہی پاکستان کی بقائ ہے۔بنگلہ دیش میں سیکولر مافیا کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ فاشسٹ رجیم ملک چھوڑ کا بھاگ گئی ہے۔ علمائ کی قاتل، جابر،ظالم حکومت عوامی طاقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکی۔پاکستان میں اْن سیکولر عناصر کے منہ پر طمانچہ پڑ چکا ہے۔ جن کی ترجیحات بیحیائی کا فروغ ہے۔ ننگا جسم گندی سوچ کے پروموٹرز کو پاکستان میں شکست انکا مقدر ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ظالمانہ بلوں اور مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنا سے پچیس کڑوڑ عوام کو اْمید ہے۔ حکومت اسے ہلکا نہ لے ، یہ تحریک تیس سال سے مسلط ڈاکوؤں کو خش وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ یہ تحریک بنگلہ دیش میں انقلاب کے بعد حالات کے نیا رْخ دے سکتی ہے۔جاتی عمرہ اور بلاول ہاؤس اس تحریک کی زد میں ہیں۔ حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو عوامی غیض وغضب کا لاوا پھٹ سکتا ہے۔یاد رہے کہ!۔ حالات کی نئی کروٹ بتا رہی ہے کہ پاکستان میں
ظالم حکمران ٹولے کیلئے کہیں بھی جائے پناہ نہیں ہوگی۔ اسکی کامیابی پچیس کروڑ کی کامیابی ہوگی (انشائ اللہ)
اللہ رب العزت پاکستان اور قوم کی خفاظت فرمائے۔ ملک خداداد کو ہمیشہ قائم و دائم فرمائے۔ ملک لوٹنے والے سفاک درندوں سے نجات عطاء فرمائے (آمین )
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here