میرا وطن جو دور حاضر میں اسلام کے نظریئے پر قائم ہونیوالی واحد اسلامی مملکت ہے، 75 برسوں میں انحطاط و تنزل کی اس حد پر پہنچ گیا ہے جہاں دین تو کیا انسانیت و اخلاق کے معیار بھی کیچڑ میں دھنس چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ لاہور کے علاقے ڈیفنس کے علاقے میں ایک مہنگے ترین اسکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ علیحہ عمران پر ہائی اسکول کی طالبات کے ہمراہ جنت ملک نامی لڑکی نے مبینہ تشدد کی واردات کی، سوشل میڈیاپر وائرل ہونیوالی ویڈیو سے مارپیٹ کیساتھ جو حقائق اور شواہد سامنے آئے، جس طرح مار پیٹ کرنیوالی طالبہ غلیظ زبان اور گالیوں کا استعمال کر رہی تھی اس سے جہاں یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہمارے تعلیمی ادارے طلباء کیلئے منشیات کے گڑھ بنے ہوئے ہیں، وہیں یہ سچائی بھی ثابت ہوئی کہ ہم تہذیب کی اس پستی تک گِر چکے ہیں جہاں ہماری بچیاں تک اخلاق سے ماوراء ہو چکی ہیں۔ ہماری تیذہب تو یہ رہی ہے کہ لاکھ بدتر حالات میں بھی اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ گھر میں یا ایسی جگہوں پر جہاں خواتین موجود ہوں وہاں کوئی غیر اخلاقی جملہ یا بد کلامی سرزد نہ ہو جائے جو شرمندگی کا باعث بنے، اس امر کا خیال رکھا جاتا تھا کہ ہمارے اطوار اپنے خاندان، قرابت داروں خصوصاً بچوں کے سامنے ہمارے افعال تہذیب کا نمونہ ہوں۔ تعلیمی اداروں میں گھر کی تربیت کے بعد اساتذہ اس بات کے ذمہ دار ہوتے تھے کہ شاگردوں کی تربیت و شخصیت سازی میں کوئی کمی نہ رہ جائے لیکن اب حالت یہ ہے کہ یونیورسٹیز و کالج تو کجا اسکولوں میں بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے، سرکاری و متوسط سطح کے تعلیمی اداروں کو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے معیار کم ہیں اور اساتذہ محض اپنی تنخواہوں سے مطلب رکھتے ہیں۔ لیکن بڑے ناموں، دعوئوں اور بھاری بھرکم فیسوں والے تعلیمی ادارے بھی اب کج روی اور تربیت سے ماورائی کا شکار ہیں۔ متذکرہ اسکول کے واقعے نے یہ واضح کر دیا ہے جہاں نہ صرف طالبات کیلئے نشے اور بد اعمالیوں کی کُھلی چُھوٹ ہے بلکہ زبان کی فحاشی بھی اس درجہ ہے کہ ایسی ایسی گالیاں اور باتیں جن کو سن کر شرمندگی سے سر جُھک جائیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچیوں کے یہ فعل انہیں گھر یا تعلیمی ماحول سے مل رہے ہیں یا یہ سب ہمارے معاشرے اور ماحول کی بڑھتی ہوئی گراوٹ کا اثر ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وطن عزیز ہر حوالے سے اور ہر شعبے میں جس درماندگی اور خرابی کا شکار ہے اس کا اظہار ہم بارہا بلکہ مسلسل کرتے رہے ہیں۔ سیاست، معاشرت، تجارت، صحافت، قانون و عدالت، حفاظت غرض ہر جگہ عداوت، مخاصمت، نفرت و کُدورت اور ایک دوسرے کو مغلظات سے نوازا جانا برتری اور سبقت کا معیار بن گیا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایسے بیانیئے اور مغلظات کو اپنایا جاتا ہے جو کسی بھی طرح انسانیت و اخلاق کے زمرے میں نہیں آتے۔ کوئی بھی معاملہ ہو اپنے مفادات اور مقاصد کو منوانے کیلئے بدزبانی، الزام ترشی، جھگڑوں اور گالم گلوچ کو اپنانا اولین ترجیح بنا لیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پورا معاشرہ نا امیدی، چڑچڑے پن اور تنازعتی کیفیت کا شکار ہے۔
کسی بھی ملک و معاشرے کو بہتر بنانے میں ملک کے ستونوں ریاست، سیاسی اشرافیہ، انتظامی اداروں اور میڈیا کا اہم ترین کردار ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرت کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہاں یہی ادارے ایسی راہ پر عمل پیرا ہیں جس سے نہ ملک کے استحکام کی صورت نظر آتی ہے نہ ہی عوام کی فلاح کا کوئی راستہ سامنے آتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے مفاداتی و خود غرضانہ روئیے اور اعمال ہیں جو ہر معاملے ہر موضوع پر نظر آتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ نہ ہماری سیاست کا رُخ صحیح ہے نہ ہی معاشرت، معیشت، تجارت و کاروبار کے حوالے سے مثبت اثرات سامنے نظر آتے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بنیادی ضروریات کیلئے ترسے ہوئے ہیں، آٹے کیلئے لمبی لائنیں،د ھکم پیل اور اموات تک سامنے آرہی ہیں۔ اشیائے صڑف کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور اس مدعے پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا میڈیا پاکستانی عوام سے ہمدردی کے بہانے پاکستان کا مضحکہ اُڑانے کے ساتھ دنیا بھر میں بدنام کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ہمارا میڈیا بشمول سوشل میڈیا اپنے حامی سیاسی رہنمائوں کے حوالے سے گالیوں سمیت وہ گند اُچھال رہا ہے جو سیاسی منظر نامے کو بدتر کرنے کے ساتھ معاشرے میں گندگی اُچھالنے اور ماحول کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔
وطن عزیز کی حالت زار کا اس سے اندازہ لگائیں کہ سیاست میں بوالعجبی و ریشہ دوانیوں کے سبب کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد سر پھٹول، جھگڑوں اور اداروں کیخلاف احتجاج ہو رہے ہیں اور میئر کا تعین ہنوز تشنۂ تکمیل ہے، پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزدگی ایسے شخص کی کر دی گئی ہے جو نیب سے پلی بارگین کی بنیاد پر کسی عوامی عہدے کا اہل ہی نہیں ہو سکتا، ہاں البتہ اس کی میرٹ یہ ہے کہ زرداری اسے ساڈا بچہ کہتا ہے اور وہ چوہدری پرویز الٰہی کی کزن کا داماد ہے۔ چھ چینلز اور ایک اخبار کا مالک یہ شخص عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں سندھ ہائوس میں فعال اور سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف کپتان کے قومی اسمبلی میں دوبارہ قومی اسمبلی میں جانے کے بعد اسپیکر کے تمام قواعد و ضابطے بالا طاق رکھ کر پی ٹی آئی کے 80 اراکین کے استعفوں کی منظوری اور الیکشن کمیشن کا فوری نوٹیفیکیشن اس امر کا اظہار نظر آتا ہے کہ مقتدر حلقے عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹا کر کچھ اور ہی چاہتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی حالت یہ ہے کہ رحیم یار خان اور سندھ میں کچے کے علاقے میں ڈاکو جدید ترین اسٹریٹجی اور ہتھیاروں سے اغواء اور ڈکیتیوں نیز تاوان کیلئے سرگرم ہیں اور پولیس و سیکیورٹی ذمہ داروں کا کوئی بس نہیں چل رہا ہے۔ معیشت کی تباہی اور آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں کی سرد مہری کیساتھ پاکستان میں یکلخت ملک بھر میں بجلی کا بریک ڈائون ہونا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ہمارا خدشہ یقین میں بدل رہا ہے کہ وطن عزیز کو کسی گھنائونی سازش کے تحت اس جانب لے جایا جا رہا ہے جہاں ایٹمی قوت، بہتر وسائل اور بہترین افرادی قوت و بہترین عسکری صلاحیت ہونے کے باوجود بے بس و محتاج ملک بنا دیا جائے۔ وقت و حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت و دیگر ذمہ داران نزاکت کی صورتحال کو سمجھیں اور اپنی اغراض و خواہشات کو پس پُشت رکھ کر پاکستان کی سلامتی، تحفظ و خوشحالی کیلئے یکجا ہوں تاکہ یہ ملک اور اس کے عوام جس حالت کو پہنچ چکے ہیں اس سے نکل سکیں ورنہ یہ نہ ہو کہ وطن عزیز اس قدر کمزور ہو جائے کہ دشمنوں کیلئے ترنوالہ بن جائے ملک سیاسی معاشی اور تہذیبی حوالے سے کوڑے دان تو پہلے ہی بن چکا ہے۔ نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے محبت و اخوت کی خوشبو سے ملک کومہکایا جائے اور یہ کام ہماری سیاسی اشرافیہ کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭