”عورت کیساتھ ظلم”

0
127
رعنا کوثر
رعنا کوثر

دنیا نے ترقی کے نئے راستے اپنائے ہیں،کہیں تعلیم عام ہوتی ہے تو کہیں ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر طرح کی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔کہیں عورتیں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہیں۔کے عورت کوئی کمزورمخلوق نہیں وہیں یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کے پاکستان کے دیہی علاقوں میں ابھی بھی عورت کے ساتھ زیادتی جاری ہے اور عورت کو نہ صرف ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اسے مردوں سے انتقام کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔آج ہی پاکستان سے آنے والی خبروں میں صرف آدھے گھنٹے کی خبروں میں تین خبریں یہ تھیں کے ایک دلہن کو ڈاکوئوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ایک لڑکی جس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے جہیز کا سامان لوٹ لیا گیااور اسے اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا گیااور ایک عورت نے اس لیے تشدد برداشت کیا کے اس نے شوہر سے پوچھے بغیر پیسے خرچ کر لیے تھے۔وہ ملک جہاں ایک طرف عورتیں سمارٹ، تیز طرار اوراپنی بقاء کی جنگ کے لیے سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔اسی ملک میں گائوں کی زندگی میں عورت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ڈاکو کسی کے گھر میں گھس کر اگر قیمتی سامان لے جائیں تو ایک لڑکی رو دھو کر رہ جائے گی۔اس کی شاید شادی ختم ہوجائے دوبارہ ویسا جہیز نہ بن سکے مگر اگر ایک لڑکی کو ڈاکو یا غنڈے چھوٹی سی کم عمر لڑکی جو کل دلہن بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔اگر غنڈے اسے اجتماعی زیارت کا شکار بناتے ہیں تو یہ کیسا ظلم ہے کسی کو تھوڑے سے پیسے یا اپنی ہوس کے لیے بے موت مار دینا انصاف تو ہرگز نہیں ہے مگر انصاف دلانے والے کیوں انہیں فوراً سخت سزا نہیں دیتے۔یقیناً ایسے لوگ پکڑے بھی گئے۔جیل کی ہوا بھی کھائیں گے۔برسوں مقدمہ چلے گئے لڑکی کو یا اس کے گھر والوں کو عدالت میں گھسیٹا جائے گا مگر کب تک اس وقت تک جب تک گھر والے تھک نہ جائیں۔لڑکی آدھی پاگل نہ ہو جائے اور دنیا بھول نہ جائے۔پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا کوئی نئی کہانی کوئی نیا ملزم سامنے آجائے گا۔کل کی مائیں آج کی معصوم عورتیں، صرف عورتیں ہیں جن کو زیادتی کا نشانہ بنانا آسان ہے۔مظلوم مخلوق جیسے اللہ نے بہت بڑے درجے دیئے ہیں۔صرف کچھ لوگوں کے لیے ایک ایسا بے جان کھلونا ہے جس سے گھر کسی بھی طرح کی زیادتی کی جاسکتی ہے۔مار پیٹ کرو،سر پھاڑ دو،مکے مارو یا سب سے زیادہ تو یہی ہے کے ایک پلان بنا کر اجتماعی زیادتی کرو۔ہر ملک میں عورتوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں ظلم ہوتا ہے۔مگر اگر عورت ہمت کرے کھڑی ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے یا کوئی اور اس بات کی نشاندہی کرے تو پولیس اور گورنمنٹ اس عورت کی مدد کرتی ہے مگر ہمارے گائوں تھے اور بعض اوقات شہر کی عورت ایسے حادثوں کے بعد ایسی ادھ موٹی ہوجاتی ہے کہ وہ کچھ بول نہیں سکتی۔ایک اسلامی ملک میں غنڈے ایسے کیوں سرعام پھرتے ہیں،یہ بات سمجھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔مردوں نے مردوں سے لڑنا چھوڑ دیا ہے۔شاید یہی سچ ہے عورت کے ساتھ ظلم بہت آسان ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here