لندن(پاکستان نیوز) برطانوی تحقیقاتی ادارہ نیشنل کرائم ایجنسی آج کل پھر پاکستانی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس بار اس کی وجہ ہے پاکستان کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بیٹے سلمان شہباز کے خلاف فنانشل کرائم کی تحقیقات کو بند کرنا۔ علاوہ ازیں نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے 21 ماہ تحقیقات جاری رکھنے کے بعد عدالت کو باپ بیٹے کے منجمد اکاؤنٹس کھولنے کی بھی سفارش کی ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ کا سب سے بڑا تحقیقاتی ادارہ ہے جسے میڈیا میں برطانوی ایف بی آئی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کا آئیڈیا ایک دہائی قبل ہوا جب برطانیہ کی سابق وزیراعظم اور 2010 میں اس وقت کی سیکریٹری داخلہ تھریسامے نے نیشنل کرائم ایجنسی کا تصور پیش کیا۔ 2013 میں اس کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور پہلے سے موجود سیریئس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی (ایس او سی اے) کو ختم کر دیا گیا۔ این سی اے کی ویب سائیٹ کے مطابق اس ادارے کا بنیادی کام آرگنائزڈ کرائم کی روک تھام، منی لانڈرنگ اور دولت سے جڑے جرائم کی چھان بین، منشیات کی ترسیل اور غیر قانونی اسلحے کا پھیلاؤ روکنا، بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر نظر رکھنا اور سائبر کرائم کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس سے پہلے نیشنل کرائم ایجنسی کا نام پاکستان میں خبروں کی زینت تب بنا جب اس ادارے نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ برطانوی اخبار دا گارجین کے مطابق ملک ریاض ایجنسی کو 190 ملین پاؤنڈ ادا کرنے پر راضی ہو گئے تھے، بعد میں یہ رقم پاکستان کے حوالے کی گئی۔ این سی اے برطانیہ کا سب سے بڑا تحقیقاتی ادارہ مانا جاتا ہے جس کے کے ایک افسر کے پاس بیک وقت تین طرح کے اختیارات ہوتے ہیں۔ پولیس آفیسر، کسٹمز اور امیگریشن کے یہ اختیار بوقت ضرورت کسی بھی وقت استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس ادارے کو مزید مضبوط بنانے کی غرض سے مختلف محکموں کے ذیلی ادارے بھی اس میں ضم کیے گئے حتیٰ کہ ایک وقت میں میٹروپولیٹین پولیس کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ بھی اس میں ضم کرنے کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘چونکہ اس ادارے کا سب سے اہم کام سنگین اور آرگنائزڈ کرائم کو روکنا ہے اس لیے اس نے پیسے کے فراڈ کو روکنے کے معاملات میں اپنی قابلیت منوائی ہے۔ ملک ریاض والے کیس میں تو انہوں نے سب کچھ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اکاؤنٹ بند ہی تب کرتے ہیں جب انہوں نے فرانزک تحقیقات کرنا ہوں۔ تو میرا خیال ہے کہ اگر این سی اے نے کسی کو چھان بین کے بعد کلیئر کیا ہے تو وہ خوش قسمت ہے۔