جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، وفاقی بجٹ پیش کیا جا چکا ہے، ایوان میں بجٹ کے حوالے سے حسب سالہائے گزشتہ حکومتی اور مخالف بینچوں کے درمیان معمول کی نزاعی کیفیت جاری ہے۔ ہم نے جب سے ہوشن سنبھالا ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بجٹ خصوصاً سویلین حکومت کے دور میں ایسا رہا جو شور شرابے اور کٹ حجتی سے ماورا رہا ہو۔ اس بار یہ سب کچھ محض سیاسی تنقید، مخالفت و طعنہ زنی تک محدود نہیں رہا بلکہ تہذیب، اخلاق و انسانیت کی ساری حدیں پھلانگ گیا۔ یہ روایت تو طویل عرصے سے رائج ہے کہ متعلقہ وزیر خزانہ یا جو بھی حکومتی رکن بجٹ پیش کر رہا ہو اس کی تقریر کے دوران مخالف بینچوں سے نعرے بازی، ڈیسک بجانے اور جملے بازی کی جاتی رہتی ہے لیکن پارلیمانی روایات و اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی یا مخالف پارلیمانی لیڈر کے خطاب کو بغیر کسی رخنہ اندازی کے سنا جاتا تھا۔ اس بار نہ جانے یہ حزب اختلاف کی سیاسی مایوسی کیو جہ تھی یا شاید یہ وجہ تھی کہ مخالفین کو بجٹ کے حوالے سے اعتراضات کیلئے کوئی دلیل نہ تھی، وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے دوران جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، وزیراعظم کے ڈیسک کو گھیر کر نعرے بازی حتیٰ کہ فحش مغلظات کا استعمال ہوا کسی بھی طرح ایک مہذب خصوصاً اسلامی معاشرے یا جمہوری روایات کا عکاس نہیں تھا۔
ہفتہ رفتہ وفاقی حکومت کا پیش کردہ بجٹ گزشتہ کئی دہائیوں میں پیش کئے گئے تمام بجٹوں کے مقابلے میں خصوصاً اس حوالے سے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے کہ اس میں نچلے متوسط طبقات اور غربت کی سطح پر طبقات کی فلاح، روزگار، رہائش و محصولات کے بوجھ میں کمی کو مد نظر رکھ کر متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ بجٹ کے اعداد و شمار پروجیکشن کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ طویل مدت کے بعد موجودہ حکومت نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جسے نہ صرف ملک کے ماہرین معایشات، شماریات و مالیات نے سراہا ہے۔ بلکہ ملکی کاروباری و مالیاتی ااروں کیساتھ عالمی فورمز پر بھی اس کی تحسین کی جا رہی ہے۔ اس کامیابی اور مثبت پیش رفت کو شکست کے مارے، ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے والے اپوزیشن کے مایوس رہنما اور ان کے زرخرید میڈیا اینکرز و تجزیہ کار محض بغض عمرانیہ میں سچائی تسلیم کرنے پر راضی نظر نہیں آتے ہیں۔ بقول غالب، ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد، کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی”۔ ان نفرت کے اندھوں کو کچھ نہ مل سکا تو اس بات پر اعتراض کر دیا کہ دفاع کی مد میں بجٹ میں ڈیفنس کو مناسب Increase نہیں دی گئی۔ واضح رہے کہ نواز لیگ اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ بقراط ہر بجٹ پر فوج کو سارا بجٹ دیئے جانے کا شور کرتے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تین سال قبل جب عمران خان کو حکومت ملی تو ملکی معیشت کی حالت سابقہ حکمرانوں کی لُوٹ مار، مصنوعی اعداد و شمار اور کرنسی کی مصنوعی قدر کے باعث انتہائی دگرگوں تھی۔ برآمدات کم سے کم تر، درآمدات بے حساب، قرضوں کے انبار اور زر مبادلہ میں کمی کے باعث نہ صرف گردشی قرضے بڑھ رہے تھے بلکہ آئی پی پیز اور دیگر مدات کے مہنگے معاہدوں کے باعث سارا بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات کی نذر ہو جاتا تھا۔ عوامی بہبود و خوشحالی کیلئے محض نعرے اور بیانات ہی ہوتے تھے۔ عمران خان نے حکومت سنبھالی تو ایک جانب تو متذکرہ بالا صورتحال کا سامنا تھا۔ سونے پر سہاگہ کرونا کی موزی وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ پوری دنیا اس کے باعث معاشی انحطاط کا شکار تھی، اس کا اثر پاکستان پر بھی لازمی پڑا۔ گو کہ کرونا کے اس پھیلائو پر قابو پانے کیلئے عمران خان کی حکومت نے مؤثر ترین اقدامات کئے جس کی دنیا بھر میں اور عالمی ادارہ صحت نے بھی تعریف کی لیکن لازماً اس وباء کے باعث معیشت مزید متاثرہوئی۔ ان حالات میں معیشت و معاشرت کی بہتری کیلئے کسی بھی اقدام کے مثبت نتائج حاصل کرنا کسی پہاڑ کے سر کرنے سے کم نہ تھا۔ نتیجتاً مہنگائی کے اثرات سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی، روزگار میں کمی کے اثرات اور لوگوں میں مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، شروع دن سے ہی پی ٹی آئی کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے والے مخالفین نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو نا اہل و نالائق و عوامی مفاد سے بے بہرہ قرار دیتے ہوئے مخالفت کا طوفان برپا کیا لیکن عمران خان کے مشن اور عوام و ملک کی بہتری کے عزم کو نہ ہلا سکے۔ کپتان اللہ پر توکل کر کے اپنی جدوجہد میں مصروف رہا اور دوسری جانب عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کرتا رہا۔ دشمنوں نے اس کے اس استدلال کا بھی مذاق اڑایا لیکن توکل علی اللہ پر قائم ایماندار اور دُھن کے پکے وزیراعظم کو اللہ رب العزت نے کامیابی عطاء فرمائی۔ میکرو اکنامکس کے تمام اشارئیے ما شاء اللہ مثبت جا رہے ہیں اور دشمن بھی اس پر انگلی اٹھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔
موجودہ بجٹ درحقیقت طویل عرصے بعد ایک عوام دوست بجٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی ستر فیصد سے زائد آبادی زراعت و محنت کش شعبوں سے وابستہ ہے۔ زراعت کے شعبے میں کسان تمام تر محنت کے بعد خوشحالی سے محروم ہی رہتا تھا اور اس کی محنت کا پھل مِلر اور مڈل مین (آڑھتی) کھاتا تھا۔ بجٹ میں اس بار چھوٹے اور نچلے متوسط کاشتکاروں کیلئے جہاں ہر فصل پر اور زرعی آلات و مشینری پر امدادی رقوم اور بلا سود قرضوں کا انتظامات کیا جا رہا ہے وہیں آڑھتی نظام کے خاتمے کا بھی اعلان ہے۔ دوسری جانب بے روزگار خاندانوں کے لیے کاروبار کی غرض سے بلا سود قرضے اور مکان کیلئے 20 لاکھ روپے کے قرضوں کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ چھوٹی گاڑیوں میں ٹیکس کی چُھوٹ جہاں عام لوگوں کو سفری سہولت کا باعث ہوگی وہیں ملک میں ان کی مینو فیکچرنگ کی صورت میں بیشتر منسلکہ صنعتوں و اشیاء اور مزید ملازمتوں کی گنجائش کا ذریعہ ہوگی۔ بڑے کاروباروں، صنعتوں، برآمدات میں اضافے کے حوالے سے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ یقین ہے کہ ان تمام اقدامات کا اثر نچلی سطح تک مضبوط ہوگا۔ احساس پروگرام، روشن نوجوان پروگرام، ہیلتھ کارڈ اور خدمت قوم کے متعدد پروگراموں کیساتھ موجودہ بجٹ کے اقدامات سے یقیناً وزیراعظم کے بقول ملک ترقی کی ر اہ پر چل پڑا ہے اور انشاء اللہ آئندہ سالوں میں خطے کا مثالی ملک بن سکے گا۔ سیاسی مخالفین کے بھونپو بے اثر ہی رہیں گے اور بقول فواد چوہدری ، مخالفین اگلے سات سال بھی بینرز اور پلے کارڈ پکڑے کونے میں ہی کھڑے رہیں گے۔ عمران خان لگے رہو، ہمت مرداں مدد خدا۔
٭٭٭