محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے دنیا میں پریشان حال انسان دعائوں کی قبولیت کیلئے بہت سے طریقے اپناتا ہے اور اس میں ایک طریقہ اللہ کے اسمائے الہی سے اللہ کو پکارنا ہے کچھ آیات قرآنی بسم اللہ شریف کی مخصوص ریاضت کے زریعے دعا کرتے ہیں آج آپ کو وہ قواعد متعارف کراتا ہوں جن کا خیال رکھ کر دعا مانگی جائے تو قبولیت ہوتی ہے ۔
جس منہ سے دعا کرتے ہیں وہ منہ اچھا ہونا چاہئے ۔ اس میں لقمہ حرام داخل نہ ہو ۔ اس سے گندی باتیں نہ نکلیں ۔ حدیث شریف میں زبان کے شر کے حوالے بہت اہمیت ہے ۔ اس سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ۔ اسی لئے زبان کی حفاظت کی ضمانت دینے والے کیلئے جنت کی ضمانت دی گئی ہے ۔ کیسا عظیم انعام ہے ۔ لیکن خود سوچیں ۔ زبان محفوظ نہ ہوتو اسی زبان سے خواہ آپ کروڑوں مرتبہ کچھ بھی پڑھ لیں وہ اثر کیسے کرسکتاہے ؟ زبان کا پاک و صاف ہونا ہر طرح سے یعنی ظاہری بھی اور باطنی بھی ظاہری یہ کہ جیسے پان سیگریٹ کی بدبو غیرہ سے منہ صاف ہو گندا منہ لے کر جیسے ہم کسی سامنے والے سے بات نہیں کرسکتے تو سوچیں دعا کیسے کر سکتے ہیں ۔ جب ایک عام انسان بھی اسے پسند نہیں کرتا تو دعا کیلئے بھی پاکیزگی انتہائی ضروری ہے باطنی طہارت یہ ہے کہ زبان کے گناہوں سے بچا جائے گالی غیبت چغلی وغیرہ سے اسے محفوظ رکھا جائے یہی اس کی پاکی ہے باطنی طہارت فیس بک پر بہت سے عاملین کے قلب جاری ہیں ۔ اور ایسے مصفا کہ ان میں وہ سارے جہان کو دیکھ لیتے ہیں ۔ یار ہم سے اپنے کپڑے بھی صاف نہیں رکھے جاتے ۔ پھر اس سے زیادہ مشکل جسم پاک رکھنا اور پھر زبان تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ اور قلب تو اس سے بھی ہزارہا گنا زیادہ مشکل ہے پاک و صاف رکھنا پھر قلب سلیم وقلب منیب کے ہم سب دعوے دار ہیں ۔ہم سب سے مراد ہے فیس بک کے ماہرین علوم روحانی۔طریقہ دعا سب سے پہلے پاک صاف جس لباس و مقام کے ساتھ قبلہ رو بیٹھ کر خواہ مصلے پر نماز کے بعد یا خواہ کہیں بھی بیٹھ کر دعا کرنا ہو تو یہی طریقہ ہے سب سے پہلے تعوذ تسمیہ پھر اللہ کریم کی حمد و ثنا اس کیلئے تسبیحات کے کوء بھی کلمات استعمال کر سکتے ہیں مثلا تیسرا کلمہ تمجید سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قو الا باللہ العلی العظیم ۔ یا یہ کلمات جو حضور کے فرمان ہے مطابق زبان پر ہلکے ہیں لیکن میزان عمل میں سب سے بھاری ہیں۔وہ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔مخلوق کو روزی بھی اسی تسبیح کے کلمات کے ذریعے عطا ہوتی ہے۔یا تسبیح فاطمہ کے کلمات پڑھے جا سکتے ہیں سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر۔ چند مرتبہ تسبیح پڑھ کر پھر چند مرتبہ درود شریف پڑھا جائے جو بھی زبانی یاد ہو وہی پڑھ سکتے ہیں۔ بزرگوں کا فرمان ہے موافق حدیث کہ اللہ طاق ہے طاق کو ہی پسند فرماتا ہے تو تمام ذکر اذکار تسبیحات وغیرہ کو طاق عدد میں پڑھنا تعلیم فرمایا گیا۔ تاکہ پسندیدگی میں زمرے میں آجائیں پھر دعا مانگیں یا کوئی عمل کریں نقش لکھیں اس کے بعد دعا مانگیں دعا کسی بھی زبان میں مانگ سکتے ہیں لیکن اس کی ابتدا مسنون دعاں یا قرآنی دعاں میں سے کسی دعا سے کی جائے مثلا بزرگوں کے فرامین کے موافق سب سے زیادہ قبولیت کے امکانات والی دعائے آدم علیہ السلام سے ابتدا کی جائے یعنی
ربنا ظلمنا انفسنا ان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الظالمین ۔
اور اس کا اختتام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی دعائے مبارکہ سے کیا جائے یعنی ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الاخر حسن وقنا عذاب النار
پھر حمد و صلوا کے بعد آخر میں تین مرتبہ آمین کہیں۔ بس یہی طریقہ دعا کا ہے۔
دعا عاجزی سے خشوع و خضوع سے مانگی جائے جلدبازی نہ کی جائے اپنی خواہشات کے اظہار میں تکرار کر سکتے ہیں یعنی دو تین مرتبہ الفاظ کو دہرانا اچھا ہے مثلا الہی مجھے بخش سے الہی مجھے بخش دے الہی مجھے بخش دے آمین
یاد رکھیں اللہ کریم سے اس کی شان کے لائق کچھ بھی مانگ سکتے ہیں اللہ کریم مانگنے والوں سے خوش اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتا ہے۔ دعا عبادت ہے عبادت کا مغز بھی ہے دعا مومن کا ہتھیار بھی ہے ۔ اور سکون کا ذریعہ بھی۔ مومن کی کامیابی اس کی درس میں مضمر ہے۔ دعا مانگنے پر فوری طور پر اگر کچھ نتائج ظاہری آنکھوں سے نظر نہ آئیں تو یہ اندیشہ بالکل نہیں کرنا چاہئیے کہ دعا رد ہوگئی ۔ کیونکہ مومن کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی ہمیشہ قبول ہوتی ہے مضطر کہ دعا جیسا کہ خود فرمایا قبول ہوتی ہے ہم لوگوں کو بھی چاہئیے کہ اگر کسی معاملے میں حقیقی اضطراب پیدا نہ بھی ہو تو کسی قدر تصنع سے اضطرابی صورت بنا لینی چاہئے بے چینی کی کیفیت طاری کرلیں چاہئیے بیمار کہ دعا قبول ہوتی ہے مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے کسی مومن کیلئے غائبانہ کی جانے والی دعا قبول ہوتی یے بزرگوں استادوں والدین پیروں کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ علما و مشائخ کہ دعا قبول ہوتی یے پریشان حال کی دعا قبول ہوتی ی سچ بولنے والے حلال کھانے والے اور اخلاق سے پیش آنے والے کہ دعا قبول ہوتی ہے غریب کہ دعا قبول ہوتی یے مقروض کی دعا قبول ہوتی یے یہ سب وہ حقائق ہیں جو واقعی ہیں۔
لیکن ہم بشری تقاضوں ہے حوالے سے سوچ سکتے ہیں کیونکہ ہم اکثر منفی یہ سوچنے کے جو عادی ہوگئے ہیں تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ جب بیمار کی دعا قبول ہوتی یے تو وہ اپنی بیماری کیوں نہیں دور کرلیتا مقروض اپنا قرض کیوں نہیں اتار لیتا ۔ مسافر منزل تک کیوں نہیں پہنچ جاتا وغیرہ در اصل یہی وہ شیطانی وسواس ہیں جو وہ مومنوں ہے قلوب میں ڈالتا ہے اسی لئے فرمایا کہ مومن ہمیشہ اچھا سوچتا ہے اس کا گمان ہمیشہ حسن اور عمدہ ہی ہوتا ہے۔ وہ منفی سوچوں سے دور رہتا ہے شیطانی وساوس اس پر اثر انداز نہیں ہوتے دوسروں کے بارے میں اچھا سوچ کر وہ خود ہی اچھا بن جاتا ہے –
اب ایک صاحب کی آپ بیتی آپ کے گوش کرتا ہوں جو دعا کے مستجاب ہونے کے طریقے سے متعلق ہے اس کو بھی پڑھئیے ۔
پچھلے دنوں راس الخیمہ جانا ہوا تو راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز کے لیے رکا – دوپہر کا وقت تھا حسب عادت پہلے صفت میں بیٹھا تو میرے برابر میں ایک بزرگ بیٹھے تھے کالے لیکن چہرے پر بلا کا نور تھا – میں نے سوچ لیا کے نماز کے بعد ان سے ضرور ملوں گا –
جماعت ختم ہوئی تو وہ مسجد کے ایک کونے میں قرآن لیکر بیٹھ گئے – میں ہمت کرکے قریب گیا اور
سلام کیا اور پوچھا اردو معلوم ہے؟
انھیں بہت اچھی طرح اردو آتی تھی ان کا تعلق یمن کی ایک تبلیغی جماعت سے تھا – قصہ مختصر بہت باتیں ہوئیں اٹھتے وقت میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے صاحب دعا قبول ہونے کا کوئی بہترین طریقہ تو بتائیں!
کہنے لگے % گارنٹی کے ساتھ دعا کی قبولیت کا طریقہ بتاں ؟ میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے، کہنے لگے اللہ رد ہی نہیں کرتا میں نے بے چین ہوکر کہا جی بسم اللہ
کہنے لگے میاں ہر نماز میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کے لیے دعا مانگو چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ
کیونکہ اللہ کے پاس تمہارے لیے ان کی دعائیں تب سے جمع ہو رہی ہوتی ہیں جب سے تم پیدا ہوئے ہو ۔
کہنے لگے یہ عمل آج سے ہی کر کے دیکھو ، سراب دیکھا ہے نہ جیسے جیسے اس کے قریب جا وہ مٹتا جاتا ہے دعا کے اس عمل سے تمہاری زندگی سے پریشانیاں اسی سراب کی طرح مٹتی جائیں گی ان شا اللہ ۔
یقین کریں اس دن کے بعد سے میں نے ایک بار بھی ناغا نہیں کیا اور راستے ایسے کھل رہے ہیں جیسے صبح رات کو کاٹ کر روشنی پھیلاتی ہے
آخر میں اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں آپ کی دعا و جائز حاجات پوری فرمائے آمین
٭٭٭