ہمارے گزشتہ ہفتے کے کالم پر بعض کرم فرمائوں نے اس بات پر ناک بھوں چڑھائی ہے کہ ہم نے ملک کے سیاستدانوں، دیگر ذمہ داروں کو جانوروں سے تشبیہہ دے کر انسان کے اشرف المخلوق ہونے اور انسانیت کی نفی کی کوشش کی ہے۔ اپنے ان نکتہ چیں خیر خواہوں کی خدمت میں صرف یہی عرض ہے کہ رب کائنات نے انسان کی تخلیق میں تمام صفات و منکرات کیساتھ جو منفرد عمل شامل کیا تھا وہ اچھے اور بُرے کی تمیز امر باالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ انسان کو اچھے و بُرے اعمال کی تخصیص اور فیصلہ سازی کی صلاحیت عطاء کی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام و معاشروں نے اس صلاحیت کو مثبت طریقے سے اپنایا وہ ترقی و کامیابی کی منازل سے فیضیاب ہوئیں اور دنیا اور دلوں پر سرفراز ہوئیں جبکہ رو گردانی کرنیوالی اقوام قصر مذلت سے دوچار ہوئیں اور تباہی و ذلت ان کا مقدر بنیں اور ان کا طرز معاشرت جانوروں سے بدتر ہوا۔ ہم نے چوہے بلی کا محاورہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے استعمال کیا تھا جو اپنی جگہ مکمل معنی و مفاہیم میں واضح ہے اور ہر باشعور اسے بخوبی سمجھتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بد نظمی و انتشار اور نفرت و گراوٹ کی موجودہ صورت ایک عام فرد سے لے کر سیاسی، انتظامی معاشرتی، معاشی سطحوں تک شدید بدنما نظر آتی ہے اور مفاد و غرض کی چھتر چھایا میں جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں ملک نہ صرف سیاسی و معاشی ابتری کے گہرے غار میں دھنس چکا ہے بلکہ امن و امان کی بدترین صورتحال اور دشمنوں کی چیرہ دستیوں کے حصار میں بُری طرح گھِر چکا ہے۔ دہشتگردی کے واقعات جس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں الامان و الحفیظ گزشتہ کالم میں ہم نے بنوں میں ہونیوالے واقعہ کے حوالے سے دست بستہ عرض کیا تھا کہ ہمارے قومی، سیاسی و سیکیورٹی ادارے وطن کی سلامتی و تحفظ کیلئے اپنی غرض و اقتدار کے تسلسل و حصول کے ڈراموں سے نکل کر ضرب عضب و رد الفساد کی طرح دہشتگردی کی دشمنانہ سرگرمیوں کیخلاف متحد ہوں لیکن بھینس کے آگے بین بجانے کے مصداق ہمارے سیاسی بازیگر اپنے گھنائونے کھیلوں میں ہی مصروف ہیں، اُن کی بلا سے، ملک تباہی کی طرف جائے انہیں اپنے سیاسی اہداف زیادہ عزیز ہیں۔ بے حسی اور خود غرضی کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہوگی۔
ابھی بنوں کا واقعہ ختم ہی ہوا تھا کہ جس میں ہمارے SSG کے بہادروں نے جان پر کھیل کر 25 دہشتگردوں کو جہنم رسید کیا اور CTD و یرغمالیوں کو چھڑایا تھا کہ اُسی دن پختونخواہ میں پولیس پر حملہ ہوا بلکہ اسلام آباد میں سیکٹر ایف 10 پر ایگل اسکواڈ کے عدیل حسین اور اس کے ساتھیوں نے دہشتگردوں کے تباہی کے بڑے منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔ عدیل حسین نے وطن پر جاں نثار کر دی جبکہ اس کے چار ساتھی زخمی ہوئے، دو شہری بھی زخمی ہوئے۔ حالت یہ ہے کہ ہماری ان سطور کے لکھے جانے تک کے پی میں دہشتگردی کے واقعات کیساتھ بلوچستان میں دو روز میں آٹھ خود کش حملے ہو چکے ہیں۔ کوہلو میں حملے میں 23 سالہ کیپٹن فہد نے جام شہادت نوش کیا چار نو عمر فوجی زخمی ہوئے۔ حملوں میں سویلین شہادتیں اور مضروبیات بھی ہوئیں۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور میڈیا نے تعزیتی بیان اور سرسری خبروں کے علاوہ اتنی زحمت بھی نہ کی کہ ان امور پر کسی عملی اقدام یا تفصیلی حالات کا پروگرام کرتے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سیاسی حریف ایک دوسرے کو مطعون کرنے، مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشی کرنے، انتخابات ہونے نہ ہونے، ذلیل کرنے کیلئے مخالفوں کے آڈیو اور ویڈیو کے انکشافات سامنے لانے پر تُلے ہوئے ہیں اور ان کے خریدے ہوئے پالتو میڈیا و سوشل میڈیا کے باجگزار زہر اُگل رہے ہوتے ہیں۔ ان بے غیرتوں کو دیس کے لوگوں، بہادر فرزندوں کے جان پر کھیل جانے کا نہ کوئی دُکھ نظر آتا ہے نہ اس حقیقت کا احساس ہے کہ دہشتگردی کے مہیب طُوفان کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عالمی اُفق پر پاکستان کے حوالے سے کتنے نقصانات ہو رہے ہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے تک صورتحال یہ ہے کہ دارالخلافہ اسلام آباد خصوصاً میریٹ ہوٹل میں ہائی الرٹ ہے، فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے حرکت میں آچکے ہیں اور خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیاسی، معاشی طور پر تو پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا ہی رہا ہے، ڈالر کی قدر، زر مبادلہ میں خطرناک اضافہ، اسٹاک میں بڑھتی ہوئی گراوٹ کے باعث آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کا منفی رویہ پاکستان کیلئے کسی بھی طرح مثبت نہیں ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کی دشمن قوتوں کو اپنا ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچانے میں کوئی مشکل کیسے ہو سکتی ہے۔
ہمیں دُکھ کیساتھ یہ احساس ہو رہا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دُشوار ترین مشکلات سے ہزاروں قربانیوں، اربوں کے نقصانات اُٹھانے کے بعد ہم نے رد الفساد اور ضرب عضب میں افواج و قوم کے اتحاد سے امن کی جو راہ ہموار کی تھی وہ ہمارے بے حس وخود غرض نام نہاد سیاسی رہنمائوں اور ان کے پٹھوئوں کی بدولت دہشتگردی اور خلفشار بلکہ وطن کے عدم استحکام کی طرف جا رہی ہے۔ ان بد اندیشوں کو اس کا احساس نہیں ہے یا جان بوجھ کر یہ سب کیا جا رہا ہے کہ نہ قوم کی وحدت کو مقدم رکھا جا رہا ہے نہ ہی ملک اور افواج پر برائی ڈالنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ان دشمن نما ملک کے دشمنوں کو یہ احساس بھی نہیں کہ خدانخواستہ اگر ملک نہ رہا تو ان سیاسی بے غیرتوں کو کس پر حکمرانی کا موقعہ ملے گا۔ اغراض و مفادات میں گھرے ان سیاسی بدمعاشوں کو یہ گُمان ہے کہ جھوٹے وعدوں، نعروں، مغلظات اور لاف زنی سے عوام ان کے حامی ہونگے، غلط مفروضہ ہے۔ عوام گزشتہ عشروں کے مقابلے میں بہت شعور کے حامل ہیں اور بریانی کی پلیٹوں، نان پائیوں یا گانے بجانے کے اہتمام سے ان کے حق میں جانے کے برعکس اپنے معاشی حالات، امن و امان اور تحفظ و سلامتی کو ترجیح سمجھتے ہیں۔ اقتدار کے ان بھوکے سیاستدانوں کو عملاً اپنے اطوار کو بدلنا ہوگا۔ فوج کے جوانوں، دیس کے بیٹوں کی شہادتوں، قوم میں تقسیم کے حیلوں بہانوں اور تقسیم در تقسیم کی حرکتوں سے ملک مضبوط نہیں کمزور ہوگا اور ملک کی کمزوری تمہاری سیاست کی تباہی ہوسکتا ہے۔ کب تک مائوں کے بیٹے، بیویوں کے سہاگ کے جان کے نذرانے پیش کئے جاتے رہیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ مخالفین کو تباہ کرنے، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور فوج و عوام کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے رویوں کو چھوڑ کر ایک قوم کے طور پر ملک دشمن قوتوں کیخلاف متحد ہوا جائے ورنہ نہ رہے گا بانس نہ ہوگی سیاست کی بانسری، یہی لمحۂ فکریہ ہے!
رہے حالات گریونہی ہمارے
نہ ہوگی اپنی داستاں تک
ہماری التجاء ہے کہ ملک کی سلامتی کیلئے ہوش کے ناخن لئے جائیں!
٭٭٭