محترم قارئین! جی۔ایم۔ سی فائونڈیشن مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی نیو جرسی سے زیرانتظام لکھا جانے والا یہ آرٹیکل اہل حق کا ترجمان ہے۔ حضور اعلیٰ حضرت، محدث اعظم پاکستان اور شمس المشائخ رضی اللہ عنھم کو فکر کا آئینہ دار ہے۔ حضور قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی کی زیر شفقت ہے آج کا اس کا موضوع”آرزو” ہے۔ انسان جب تک زندہ ہے بے آرزو نہیں ہوسکتا شاید آرزو ہی زندگی ہے۔
ہر انسان صاحب آرزو ہے ہر دل آرزو پیدا کرتا ہے آرزو نہ ہو تو زندگی بے معنی سی ہوجاتی ہے۔ آرزوئیں انسان کو بے بس کردیتی ہیں۔ انسان انہیں آرزوئوں کے حصار میں اس طرح جکڑا جاتا ہے جیسے شہد میں مکھی اور پھر انسان ڈوبتا ہی جاتا ہے ایک آرزو کا تعاقب ہمیں دوسری آرزو سے متعارف کراتا ہے۔ اور اس طرح سلسلہ ور سلسلہ زنجیر بنتی چلی جاتی ہے۔ اوراس سے نجات کی راہ ممکن ہی نہیں۔ ہماری زندگی کی اکثر وابستگیاں آرزو کے دم سے ہیں۔ محبت آرزوئے قرب محبوب کا نام ہے۔ نفرت آرزو ئے فنائے عدو ہے۔ حصول زر آرزوئے آسائش ہے اسی طرح عبادت آرزوئے تقرب حق ہے۔ غرضیکہ ہر عمل کے ساتھ آرزو کا وابستہ ہونا لازمی ہے بے آرزو عمل مجبوری ہے لاچاری ہے بلکہ بیماری ہے۔ آرزو مر جائے تو اس کی لاش سے نئی آرزو پیدا ہوتی ہے یہ ایک قفس ہے جو جلتا ہے تو اپنی راکھ نئے قفس کو جنم دیتا ہے آرزو تلاش پیدا کرتی ہے اور تلاش سفر پیدا کرتی ہے۔ سفر انسان کے لئے نئے نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اور ان مسائل کے حل کے لئے نئی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اور اس طرح چلتے چلتے راستہ بدل جاتا ہے اور پھر انسان حیران و پریشان سوچتا ہے کہ اس نے جو چاہا تھا وہ یوں تو نہ تھا وہ غور کرتا ہے کہ اس نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کا سفر ایک نیا خواب بن کر سامنے آیا ہے جو اپنے لئے کسی نئی تعبیر کا انتظار کریگا۔ نیا خواب پرانے خواب سے مختلف ہوتا ہے۔ اور نئی تعبیر اپنی ہی دور ہوتی ہے، جتنی پہلے خواب کی، آرزوئوں کے سلسلے ور سلسلے اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے نکلنا اور ان کو سمجھنا دشوار ہے۔ ہماری اکثر آرزوئیں ضرورت کی آرزوئیں ہیں مثلاً خوراک، مکان، لباس، اور ہر آدمی خوراک کا محتاج ہے خوراک صرف روٹی کا نام نہیں، جس سے ہم پیٹ بھرتے ہیں۔ خوراک نگاہ کے لئے نظارے کی تمنا بھی ہے۔ آنکھ کی خوراک حسین منظر ہے ذہن کی خوراک حسین خیال ہے۔ دل کی خوراک پر تو جمال ہے روح کی خوراک ذوق خود آگہی کے ساتھ ساتھ لطافت احساس حقیقت ہے۔ ہر خواہش خوراک کی تلاش پر مجبور کرتی ہے ہم جس کیفیت میں ہوتے ہیں ویسی ہی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انسان سرگرداں ہوتا ہے۔ یہ آرزو ہماری سرشت میں ہے فطرت میں ہے۔ انسان کی آرزو، سے نیکی اور بدی کے راستے دکھاتی ہے۔ تکمیل آرزو کے مراحل بڑے کٹھن ہیں خوش رہنے کی آرزو غم سے آشنا کراتی ہے حاصل کی آرزو محرومیوں کے دامن سے وابستہ وابستہ کرتی ہے جیسے کی آرزو موت کے شکنجے میں لاتی ہے۔ آرزو کا سفر مرگ آرزو تک ہے۔ جو حاصل ہوگیا اس کی تمنا ختم ہوجاتی ہے اور جو نہ حاصل ہوسکے وہ ایک حسرت ناتمام بن کر دم توڑتی ہے۔ آرزو کا مسافر رکتا نہیں وہ چلتا رہتا ہے۔ اگر اسے کسی ایسی ہستی سے تعارف ہوجائے جو اس کو اس کی آرزو کا چہرہ دکھا کر اسے آرزو سے بے آرزو کردے، تو یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ آرزو کا طویل سلسلہ انسان کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔ آرزو کا فسانہ کبھی ختم نعہیں ہوسکتا۔ کبھی آغاز رہ جاتا ہے اور کبھی انجام رہ جاتا ہے۔
بعض اوقات جب ہم اپنی آرزو کو حاصل کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ چیز نہیں، جو ہم نے چاہی تھی ہم نے یوں تو نہ چاہا تھا تمنا اور حاصل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ خوابوں اور تعبیروں میں بڑے فاصلے ہوتے ہیں زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان محسوس کرتاہے جیسے اسکی آرزوئیں، اس کا حاصل، لاحاصل ہو۔ اسے ناکام ارادوں پر خوشی سی ہونے لگتی ہے اور کامیاب آرزئوں کے انجام سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ کامیاب آرزو گناہ ہوسکتی ہے لیکن ناکام آرزو کبھی گناہ نہیں ہوتی۔ نیکی کی آرزو ناکام ہو، تب بھی نیکی ہی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی آرزو سے پہلے ان کے انجام اور ان کی عاقبت کے بارے میں کسی جاننے والے سے پوچھ لیا جائے کہ بظاہر کامیاب زندگی ایک ناکام بلکہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوتی ہے۔ آرزوئوں کو انجام کے حوالے سے دیکھنا اور پہچاننا ہی باعث رحمت اور باعث عافیت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھی آرزو اور تمنا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے