پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عیدالا ضحی کے موقع پر ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، مطلب یہ کہ جانوروں کی قیمتیں کم ہوگئیں ہیں اور انسانوں کی زیادہ، مثلا”کراچی میں ایک ہٹّا کٹّا بکرا دو سو ڈالر کا مل جاتا ہے اور انسان ایک ہزار ڈالر کا ملتا ہے، اور اُس کے ساتھ ہزاروں شرائط عائد ہوتی ہیں ، اُس میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ اُس کے لئے ایک خوبصورت پری زاد کا انتظام کرنا پڑیگا،رہنے کیلئے ڈیفنس میں ایک اپارٹمنٹ او کے ہے، سواری کیلئے ایک نئی ماڈل کی گاڑی ضرور ہونی چاہیے،خریدے ہوئے انسانوں پر حکمرانیت کا جو طریقہ کار ہوگا اُس کا موازنا اُن اراکین اسمبلی سے کیا جاسکتا ہے جو گزشتہ عدم اعتماد کے ووٹ میں فروخت ہوگئے تھے، لوٹوں کو بے تھوک خریدا گیا تھا، اُن سے مذمت کرنے کے بیانات زبردستی دلوائے جارہے تھے، اُنہیں ڈبے میں بند کرکے پریس کلب لایا جاتا تھا تاکہ اُن کی پا رٹی سے استعفیٰ دینے کی تصویریں چھاپیں جاسکیںلیکن تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بکرے کو مویشی خواں گاؤں سے ہانکتے ہوے شہر لارہا ہے. جگہ جگہ رُک کر اُن بکروں کو لیکچر دیتا ہے کہ ذرا شرافت سے رہنا، گاہک آئے تو اُس کے قدموں کو چاٹنے لگنا تاکہ وہ تمہارے دام محبت میں پھنس جائے اور تمہیں منھ بولی قیمت میں خرید لے. سینگ مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ورنہ گاہک یہ نہ سمجھے کہ انتہائی بدتمیز بکرا ہے ، اِس میں گوشت بھی کم ہونگے ، ساری چربی تو اِس نے غصہ کرکے پگھلا دی ہوگی، شام کو دوبارہ مویشی خواں سارے فروخت نہ ہونے والے بکروں کو یکجا کرکے لیکچر دیتا ہے ، اور سوال کرتا ہے کہ آخر گاہکوں نے تمہیں کیوں نہیں خریدا؟ ضرور تم میں کوئی خامی ہوگی، تمہاری سینگ ٹوٹی ہوئی ہوگی یا تم لنگڑا کر چلتے ہوگے، ایک بکرے نے تو غصے میں آکر یہ جواب دے دیا کہ ”یہ کراچی کے لوگ بکرے کے بجائے بکرے کا پایہ کھانے کے عادی ہیں۔ یہ منھ اور مسور کی دال ” مویشی خواں فورا” متحرک ہوگیا اور ڈانٹ کر کہا کہ” شہری بابوؤں کے خلاف اِس طرح کی باتیں کرنے سے حالات اور بھی خراب ہونگے ، کوئی بھی پنجاب سے آیا ہوا بکرا نہیں خریدے گا،سندھ کا دیسی بکرا جس سے بو آتی ہے اُسی کو خرید کر فرائص ابراہیمی ادا کریگا۔”
ایک اندازے کے مطابق کراچی میں جو بکرا 200 ڈالر میں فروخت ہورہا ہے نیو یارک میں اُس کی قیمت 450 ڈالر کے لگ بھگ ہے لیکن اِس کے باوجود بکرا منڈی میں گاہکوں کی تعداد کم اور جانوروں کی زیادہ ہے بلکہ ایک مویشی بیچنے والے مرچنٹ نے یہ اعلان کردیا کہ تمام لوگ جو جانور اُس کے یہاں سے خریدیں گے اُن کی لاٹری نکالی جائیگی ، اور جس کا نام لاٹری میں آگیا اُسے ایک موٹر سائیکل انعام میں دی جائیگی .بلاشبہ اُس کے لاٹ میں گاہکوں کی رش لگ گئی ہے لیکن لوگ جانور دیکھنے کے بجائے موٹر سائیکل کو دیکھ رہے ہیں، ہر کوئی بکرا مرچنٹ سے یہ استفسار کر رہا ہے کہ موٹر سائیکل کی لاٹری کب نکلے گی؟ مرچنٹ جواب دیتا ہے کہ بس 80 بکرے اور 26 گائیں فروخت ہونا ابھی باقی ہیں ، جیسے ہی مال ختم ہوگا لاٹری نکال دی جائیگی۔ اِس شرط پر گاہکوں کے درمیان شک و شبہات پائے جانے لگے ہیں ، اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ تمام جانور فروخت نہ ہوے تو بکرا مرچنٹ اپنے جانوروں کو لے کر واپس پنجاب چلا جائیگا اور لاٹری نہیں نکلے گی، اِسلئے وہ پنجابیوں کی اہلیان کراچی کو بیوقوف بنانے کی سازش کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن معلوم ہوا ہے بکرا مرچنٹ لندن پلٹ ہے ہر بقرعید کے موقع پر وہ پاکستان آ جاتا ہے، فیصل آباد میں اُس کا جانوروں کا ایک بڑا فارم ہے ، اور وہ لندن میں بیٹھ کر اُس کا نگرانی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لاٹ کے قریب سیل فون ِ اور گھڑیاں فروخت کرنے کا اسٹال بھی لگا دیا ہے تاہم ایم کیو ایم والے پنجابی بکرا مرچنٹ سے جانوروں کا علیحدہ بھتہ اور فون اور گھڑیوں کا علیحدہ علیحدہ بھتہ لیتے ہیں، اُنکا کہنا ہے کہ ساری رقمیں انتخابات پر خرچ کی جائینگی . بھتہ نہ ملنے کی وجہ کر انتخابات میں شکست اُن کا مقدر بن گئی تھی تاہم جماعت اسلامی کے کارکنان کھالیں جمع کرنے کیلئے لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں، اُنکا کہنا ہے کہ وہ بھتہ نہیں لیتے ، لیکن کھالیں اور چندہ جمع کرتے ہیں ، جو بھی دیتا ہے وہ ثواب دارین کا مستحق ہے۔
پاکستان میں شدید معاشی بحران نے لوگوں کی ہوائیاں اُڑادی ہیں، کراچی میں بیشتر ملازم پیشہ افراد کی ماہانہ آمدنی 35 ہزار سے کم ہے اور ایک بکرے کی قیمت اِسی کے لگ بھگ ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ ایک بکرے کی قربانی دیں یا گھر کے اخراجات جن میں الیکٹرک کی بِل، بچوں کے اسکول کی فیس ، مکان کا کرایہ اور متفرق اخراجات شامل ہیں کیلئے تنخواہ کی رقم بچائیں اور پھر ہوشربا مہنگائی ساری تنخواہوں کو یکلخت ہوائوں میں تحلیل کردیتی ہے، پاکستان میں افراط زر کی شرح 50 فیصد
سے بھی زائد ہے، امریکا میں ماہانہ چھ ہزار ڈالر لینے والے ساڑھے تین ڈالر گیلن گیس خریدتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ماہانہ 335 ڈالر تنخواہ لینے والے 4 ڈالر گیلن گیس خریدنے پر مجبور ہیں،مزید برآں
سبھوں کی رات کی نیندیں حرام ہو کر رہ گئیں ہے کہ کل کو اُنکا کارخانہ پارٹس کی نادستیابی کی وجہ کر مستقلا” طور پر بند نہ ہوجائے، واضح رہے کہ کراچی میں بیشتر آٹو پلانٹ پارٹس نہ ہونے کی بنا پربند پڑے ہیں جن میں ٹویوٹا، سوزکی، ہنڈا، انڈس آٹو زشامل ہیں. یہ تمام کارخانے اُن پارٹس کا انتظار کر رہے ہیں جو کارگو شِپ پر کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں یعنی کہ جب پارٹس کی ادائیگی ہوگی تو اُنہیں ریلیز کیا جائیگا،رقم کی ادائیگی ابھی ناممکن ہے ، کیونکہ پاکستان کے پاس وزیر خزانہ تو موجود ہے لیکن خزانہ نہیں.لہٰذا بکرے کی ماں تو فی الحال خیرمناتی ہی رہیگی۔