وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ امریکہ میں صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی بازگشت پاکستانی ایوانوں میں تبدیلیوں کی نوید سنا رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے وفد میں بھارت کے ارب پتی کاروباری افراد تھے جنہوں نے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کاروباری امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔حب الوطنی کا ایک سادہ تقاضا یہ ہو سکتا ہے کہ مودی کے دورہ امریکہ کی کامیابیوں کو نظرانداز کر کے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے دورہ پیرس کو نمایاں کیا جائے لیکن اس سے یہ ہو گا کہ اہل پاکستان خطے میں ٹیکنالوجی معیشت اور سیاست کے متعلق آنے والی تبدیلیوں سے بے خبر رہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ جنوبی ایشیا میں تبدیلیوں کی خبر ہے۔اٹھاون نکاتی مشترکہ اعلامیہ بتاتا ہے کہ دونوں ملک دفاعی معاشی اور سیاسی شراکت داری کو نئی بلندیوں کی سطح پر لے جانے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹنالینا جارجیوا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فرانسیسی صدر میکراں مصری صدر عبدالفتاح السیسی سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور متعدد دیگر شخصیات سے ملاقات میں پاکستان کی معاشی مشکلات آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں مدد اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے وعدہ کئے گئے اربوں ڈالر جاری کرنے کی درخواست کی۔یہ دو مختلف منظر نامے ہیں جو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کو قومی مفادات کے تحفظ میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ 1997 میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 80ارب ڈالر تھے جو اب بڑھ کر 600ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔1997 میں پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 10ارب ڈالر تھے جو اب کم ہو کر 4.5ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔بھارت اور امریکہ کے لیڈروں کی طرف سے جاری مشترکہ اعلامیہ ایسے کئی معاہدوں اور منصوبوں سے بھرا ہوا ہے جو خطے میں امریکی مفادات کو بھارت سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔اس نوع کے منصوبوں کا اثر کشمیر کے تنازع اور پاکستان کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔بھارت اور امریکہ خلائی سائنس کے شعبے میں اشتراک کریں گے کمپیوٹر، موبائل فون اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کے لئے استعمال ہر مشین میں استعمال ہونے والے سیمی کنڈکٹر جن پر قبل ازیں کوریا اور تائیوان کا اجارہ ہے اب امریکہ بھارت میں اس کا کارخانہ لگائے گا۔دونوں ملک جوائنٹ انڈو یو ایس میکنزم کی تشکیل پر متفق ہوئے ہیں۔بھارت اور امریکہ کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ وہ 35اختراعی منصوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ بھارت میں ایف 414جیٹ انجنوں کی تیاری کا کارخانہ قائم کرے گا۔دونوں ملک عالمی سطح پر اور جنوبی ایشیا میں اپنے مشترکہ اہداف کو تحفظ دینے کے لئے کئی طرح کے دفاعی منصوبے شروع کریں گے۔بلا شبہ تادیر معاشی و تجارتی منصوبوں کا ایک مقصد بھارت کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ کسی ضرورت کے وقت امریکہ کو چین سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکے۔ بھارت اور امریکہ پاکستان کے متعلق کیا سوچ رہے ہیں اس کا اندازہ مشترکہ اعلامیہ میں شق نمبر 32سے ہو جاتا ہے۔اس شق میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور ہندوستان عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں اور دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، آئی ایس آئی ایس/داعش، لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)، جیش محمد (جے ای ایم) اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے سرحد پار دہشت گردی، دہشت گرد پراکسیوں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ اس کے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے مقاصد کے لیے بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں (UAVs)، ڈرونز اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے بڑھتے ہوئے عالمی استعمال پر تشویش ظاہر کیاور اس طرح کے غلط استعمال سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت کی تصدیق کی۔ دونوں حکومتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کے منصب داروں اور ہوم لینڈ سکیورٹی تعاون بشمول انٹیلی جنس شیئرنگ اور قانون نافذ کرنے پر تعاون کا خیرمقدم کیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر زور دیا کہ وہ منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے اپنے عالمی معیارات پر عمل درآمد کو بہتر بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی نشاندہی کرے۔بھارت اور امریکہ کا مشترکہ اعلامیہ پاکستان پر دباو ڈالنے کی کوشش ہے ۔ پاکستان کو اپنا ذکر پراکسی جھگڑوں دہشت گردی اور دیگر منفی حوالوں سے کرنے پر اس اعلامیہ کی مذمت کرنی چاہیے۔ پاکستان کی حکومت اداروں سیاسی جماعتوں کاروباری افراد اور عام لوگوں کو نیند سے جاگنا ہو گا۔ پاکستان پہلے ہی وقت ضائع کر چکا ہے۔ترقی کے دستیاب مواقع داخلی جھگڑوں اور نااتفاقی نے برباد کر دیے۔دنیا پاکستان کے مستقبل کے متعلق غیر یقینی کا شکار ہو رہی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو پچھلے ایک سال میں امریکہ کے متعدد دورے کر چکے ہیں اس کے باوجود امریکہ کا بھارت کی زبان بولنا پاکستان کے لئے اطمینان بخش نہیں ہونا چاہیے۔
٭٭٭