سیاست مدت سے عدت تک!!!

0
12
جاوید رانا

ہم آج کا کالم بغیر کسی تمہید کے معروف شاعر محسن بھوپالی مرحوم کے ان دو اشعار سے کر رہے ہیں ”میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے، کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے” اور ‘ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو، الزام جو دینا ہو سر عام دیا جائے”۔ تصریح ان اشعار کی ان عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں سے ہے جن کی ماتحت عدلیہ نے ایک ہفتے میں عمران خان کیخلاف دیئے اور جس ملک میں برسوں میں مقدمات کے فیصلے ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا وہاں گھنٹوں میں وہ فیصلے کر دیئے گئے جن کی قانونی ماہرین یہاں تک میڈیا کے نمائندوں، تجزیہ کاروں اور مبصروں کی نظر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عدالتوں کا متعینہ اوقات کار کے برعکس طویل وقت تک سماعتوں کا جاری رکھنا، دفاع کے وکلاء کو نت نئی وجہ کی بناء پر دفاع سے محروم کر دینا اور فوری فیصلہ کر دینے کے علاوہ فیصلوں میں وہ قانونی وضابطہ کی غلطیاں کہ جن کے حوالے سے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل پر ان فیصلوں کو اٹھا کر پھینک دیا جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کیلئے اتنی عجلت کیا تھی اور کیا ان ججوں نے یہ فیصلے کیسز کی میرٹ پر کیے یا یہ فیصلے ہدایت کی بناء پر اس سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر کئے گئے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو سیاسی و انتخابی ایرینا سے باہر رکھا جانا یقینی بنایا جائے، ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس خدشہ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عمران کیخلاف دیکھا جائے تو اب تک چار فیصلے آچکے ہیں، سائفر، توشہ خانہ اور عدت میں نکاح کے کیسز پر گزشتہ ہفتے میں اور الیکشن کمیشن کا پہلے توشہ خانہ میں فیصلہ اور سزا جس کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے کے سبب سزا معطل ہے۔ عدت میں نکاح کے کیس میں عمران اور بشریٰ بی بی کو جو سزا سنائی گئی ہے متعلقہ جج نے 14 گھنٹے تک سماعت جاری رکھی اور دوسرے دن فیصلہ بھی متعینہ وقت سے دو گھنٹے تاخیرسے سنایا۔ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ اس التواء اور تاخیر کے پیچھے کیا عوامل تھے اور الیکشن سے قبل یہ سزا سنانا کیوں ضروری تھا، عمران کو سائفر میں سز اسنا کر اس کو ریاست سے غداری قرار دینا، توشہ خانہ میں سزا سنا کر اس کی ایمانداری پر دھبہ لگانا مقصود تھا تو عدت کے کیس میں عمران اور بشریٰ بی بی کو سزا سنا کر عمران کے کردار کو عوام کے سامنے گندا کرنے کا ہدف تھا لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود بھی عمران کی مقبولیت اور محبوبیت آج بھی عوام میں برقرار ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ البتہ بشریٰ بی بی کا جملہ ”یہ غیرت اور بے غیرتی کے درمیان مقدمہ تھا” بہت اہمیت کا حامل ہے اور سیاست کے کھیل میں خاور مانیکا کے بے غیرتی اور گھنائونے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ 2018ء میں عمران اور بشریٰ بی بی کی شادی کے بعد اپنی سابقہ بیوی کو دنیا کی پاکیزہ عورت قرار دینے والا خاور مانیکا گزشتہ برس جب دو ماہ کی قید کاٹ کر واپس آیا تو اس کا سافٹ ویئر بدل چکا تھا اور اسے بشریٰ بی بی میں عدت میں نکاح سے لے کر اپنے گھر کی بربادی و بچوں کی محرومیت سب نقص یاد آگئے۔ ایک جملہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ خاور مانیکا کیسا بے غیرت ہے کہ سابقہ بیوی کے خاتون اول ہوتے ہوئے وہ ذاتی و مالی فائدے اٹھاتا رہا اور جب عمران و بشریٰ بی بی پر بُرا وقت آیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی منشاء پر خدا کو حاضر و ناظر جان کر تہمت طرازی مقدمہ پر بھی اُتر آیا۔
یہاں ہمیں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے اصل فیصلہ سازوں نے سیاست کو مدت سے عدت تک دراز کر دیا ہے۔ اب تک تو یہ ہوتا آیا تھا کہ منظور نظر حکمراں یا حکومت نا پسند ہو جائے تو مدت پوری ہونے سے قبل ہی اسے چلتا کر دیا جاتا تھا اور عوام میں اس کی وقعت و مقبولیت کو ناقابل قبول بنا دیا جاتا تھا لیکن آج کے اصل مقتدروں نے تو کرپشن، نا اہلی یا صداقت کے زمروں کیساتھ کردار کشی کو بھی سیاست میں عدم مقبولیت کاحربہ بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام حربوں اور ہتھکنڈوں اور کٹھ پتلی حکومتوں اور پولیس کی چیرہ دستیوں، انسانیت سے بعید اقدامات کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی کی عوام میں سپوٹ اور مقبولیت سلیکٹڈ سے بہت زیادہ ہے۔ ہم جس وقت یہ سطور تحریر کر رہے ہیں نام نہاد انتخابات کی سرگرمیاں اختتام پر ہیں۔ انتخابی سرگرمیوں کے درمیان دوسری سیاسی جماعتوں کو جلسوں، ریلیوں اور رابطوں کی کھلی چھوٹ رہی لیکن پی ٹی آئی کے امیدواروں کیساتھ سوتیلی ماں کا سلوک جاری ہے۔ یہاں فیصل آباد میں دوسری جماعتیں تو دھوبی گھاٹ اور یونیورسٹی گرائونڈ میں اپنے جلسوں، ریلیوں اور حلقوں میں کمپیئن کرنے میں آزاد تھیں لیکن پی ٹی آئی کو میٹنگ کرنے، بینرز لگانے، پمفلٹ تقسیم کرنے یا ڈور ٹو ڈور رابطہ کرنے کی بھی اجازت نہ تھی، پولیس آقائوں کی ہدایت کے مطابق لاٹھی بازی، جھنڈے چھیننے اور پمفلٹ پھاڑنے کیساتھ دھونس دھمکیوں میں مصروف رہی۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ 8 فروری کو الیکشن نہیں سلیکشن ہوگا۔ اس سلیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔ لاڈلی ن لیگ کے حلق میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار حلق کی ہڈی بن گئے ہیں اور امکان یہی ہے کہ بلا کا نشان نہ ہوتے ہوئے بھی عوام بھرپور تعداد میں ان آزاد امیدواروں کو ووٹ دینگے۔ دوسری طرف زرداری کی سیاسی شاطرانہ چالوں اور بلاول و آصفہ کی بھرپور مہم بھی ن لیگ کیلئے درد سر ہے۔ ہر پارٹی کی یہی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں لے کر مقتدرین کو باور کروا سکے کہ اقتدار کے بھان مکتی کے کنبہ میں حصہ دار ہو۔ اس چکر میں آپ انتخابی مہم میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان لڑائی، فائرنگ، حملوں، ہلاکتوں اور الزام تراشی کی خبروں سے آگاہی حاصل کرتے ہی رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ الیکشن ڈے پر بھی آپس کے جھگڑے یا دہشتگرد حملے انتخابی عمل کو متاثر نہ کریں۔ بہر حال ہمارے مطابق تو 8 فروری کو 75 سال کا سب سے بڑا سلیکشن ہونے جا رہا ہے، جس میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو پابہ رنجیر کر دیا گیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here