جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا!!!

0
111
پیر مکرم الحق

وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں جان تو آنی جانی ہے
27 دسمبر کا منحوس دن ہے ،چودہ سال پہلے لیاقت باغ کے تاریخی مقام پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نہایت منظم طریقے سے پانچ ٹولوں نے گھیر کر متحرمہ بے نظیر کو بے بس حالت میں شہید کر دیا۔ یاد رہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا ،اس کے بعد بھی اسی مقام کے قریب ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں 14اپریل1979 کو سابق صدر پاکستان دو بار منتخب ہونے والے وزیراعظم اور فائونڈر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کو رات کی تاریکی میں 3اور 4اپریل کی درمیانی رات صبح2بجے پھانسی دیدی گئی تھی اور پھر اسی لیاقت باغ کو منتخب کیا گیا جہاں پر ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی دو بار منتخب ہونے والی مقبول وزیراعظم جنہیں اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ بیت اللہ مسعود اور 7/7 کے لندن دھماکوں کے مجرم رئوف ادریس کے تعاون سے بریگیڈیئر اعجاز کی سربراہی میں بنائے جانے والے سیل نے قتل کیا ، عیارانہ سازش میں عین جلسہ کے وقت سے کچھ ہی دیر پہلے محترمہ خفیہ ادارے کے سربراہ نے منع کرنے کی کوشش کی کہ آپ جلسہ میں نہیں جائیں۔ ان اداروں کو اچھی طرح علم تھا کہ جس طرح بی بی پاکستان آنے سے نہیں رکیں وہ جلسہ میں جانے سے بھی باز نہیں آئیں گی۔ اس لیے اپنی پوزیشن کو صاف رکھنے کی ایک بھونڈی کوشش تھی کہ ہم نے تو منع کیا تھا وہ خود باز نہیں آئیں۔ پاکسان آنے سے پہلے ہی جنرل مشرف نے محترمہ کو پاکستان آنے سے منع کیا تھا کیونکہ مشرف جانتا تھا کہ محترمہ اگر پاکستان آ گئیں تو پھر اس کی حکومت کو ختم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔لیکن محترمہ نے مشرف کو ٹکہ سا جواب دیا کہ میں ہر صور ت پاکستان آئوں گی۔ جس پر مشرف نے ایک دھمکی نما جواب دیا کہ اس صورت میں آپ کی حفاظت کی میں کوئی ضمانت نہیں دے سکتاہوں۔ اس جملہ سے صاف جھلکتا ہے کہ مشرف نے محترمہ کو صاف کہہ دیا تھا کہ اگر آپ پاکستان آئیں تو قتل کر دی جائیں گی۔ ورنہ دنیا کی دسویں بڑی فوج اور جس کے ماتحت عالمی نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی ہو وہ اپنے ہی پیدا کردہ طالبان غنڈوں کے سامنے کیسے بے بس ہو سکتا ہے؟ مقتل تیار تھا قاتلوں کے ٹولے پھیلا دیئے گئے تھے۔ متحرمہ کو بھی اندازہ تھا کہ قاتل ان کی ٹوہ میں ہیں لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے اپنی جان تو قربان کرنا قبول کیا لیکن تاریخ میں مرنا قبول نہیں کیا اگر وہ بھی چاہتے تو جان بچانے کیلئے سیاست سے دستبردار ہو جاتے اور نوازشریف کی طرح ملک بدری قبول کر لیتے لیکن انہوں نے اپنی دھرتی ماں کی گود میں مرنے کو ترجیح دی اسی طرح اگر متحرمہ چاہتی تو اچھی سے اچھی زندگی امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں بس جاتیں لیکن انہوں نے خون سے اقتدار کے مرکز میں جی ایچ کیو سے کچھ ہی فاصلے پر اپنے مظلوم خون کا وہ دھبہ لگانا تھا جنہیں باوجود جنرل مشرف کے سینکڑوں واٹر ٹینکرز کے دھونے کے لیے داغ جی ایچ کیو کے ماتھے پر ایک کلنک کا دھبہ بن کر آنے الی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے عیاں رہے گا۔ اس میں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا خون شامل ہے اسی میں اکبر بگٹی اور ان ہزاروں گمشدہ لوگوں کا خون بھی شامل ہے جنہیں بلوچستان ، سندھ، پنجاب اور پختونخوا سے اغوا کر کے لے جایا گیا اور آج تلک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ پاکستان کی غریب عوام کی آہیں اور آنسو بھی اس دردناک دھبہ کا حصہ بن گئے ہیں اور آج آسمانوں کی طرف دیکھ کر مظلوموں کے وارث اس بڑی عدالت میں اپنی داد رسی کی فریاد داخل کررہے ہیں کیونکہ جہاں زمینی عدالتیں ناکام ہوتی ہیں وہاں آسمانی عدالت اپنا فیصلہ دیتی ہے جو آخری اور اٹل فیصلہ ہے۔ جرنل ضیا الحق پر تو آسمانوں کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا جواب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔جرنل مشرف بھی بھگت رہا ہے کیونکہ یہ قتل اس معصوم اور یتیم بچی کا نہیں تھا، بائیس کروڑ عوام کے مستقبل کی آرزوئوں کا قتل تھا۔ آج تبدیلی کا خواب دکھا کر راولپنڈی والوں نے پاکستان کی عوام کو مہنگائی ، بیروزگاری اور لا قانونیت کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ اس بے قصور بینظیر کے بے گناہ خون کا انتقام ہے جو اپنے قاتلوں کو بتا رہا ہے کہ اب کے لئے خلق خدا اٹھی تو راولپنڈی کے قلعہ کی دیواریں کانپ جائیں گی اور پھر بھاگنے کو راستہ نہیں ملے گا۔ باپ بیٹی کا خون ناحق آج بھی راولپنڈی کی زمین پر موجود ہے وہ اس وقت تک تازہ رہے گا جب تک ان کی شہادت کو مٹی میں چھپانے والے خود نیست و نابود نہیں ہو ں گے۔
اس جاں کی تو کوئی بات نہیں ہے جان تو آنی جانی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here